بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مالِ حرام میں میراث جاری ہوگا؟ میراث کے مال میں زکات کا حکم


سوال

 میرے والد صاحب نے اسٹیٹ لائف میں انشورنس کروائی ہوئی تھی اور اب وہ فوت ہو گۓ ہیں، انہوں نے تقریبًا ایک لاکھ ستر ہزار روپے جمع کرواۓ ہوۓ تھے، اب وہ فوت ہو گۓ ہیں اور ہمیں پانچ لاکھ اکیس ہزارروپے ملے ہیں، یہ پیسےہمیں والد صاحب کی فوتگی کے ایک سال بعد فروری 2021ء میں ملے ہیں۔  پوچھنا یہ ہے کہ ان پیسوں کی زکات ابھی ادا کرنی ہو گی؟ اور یہ پیسے ہم اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ انشورنش  سود اور جوے کا مجموعہ ہے،  اس لیے انشورنس کروانا جائز نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد نے جو رقم (ایک لاکھ ستر ہزار روپے)  انشورنس کمپنی کے پاس جمع کی تھی وہ رقم آپ لوگوں کے لیےجائز ہے، اس کے علاوہ اضافی رقم جو وصول کی ہے وہ سود ہے، اس کا استعمال کرنا جائز نہیں اور نہ ہی اس پر زکات واجب ہے، بلکہ اسے ثواب  کی نیت کے بغیر  زکات کے مستحق  فقراء ومساکین پر صدقہ کردیں۔ باقی ہر وارث کو جو رقم ملی ہے اس کی زکات کا حساب اس کے اعتبار سے ہوگا، لہذا اگر وہ پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو  اور  ملنے والی رقم بھی نصاب کی بقدر نہ ہو تواس پر زکات واجب نہیں، اور اگر  کوئی وارث پہلے سے صاحبِ  نصاب ہو تو دیگر  مال کے سال گزرنے پر میراث میں   ملنے والی اس رقم پر بھی زکات واجب ہوگی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

بخلاف ما تركه ميراثًا؛ فإنه عين المال الحرام وإن ملكه بالقبض والخلط عند الإمام؛ فإنه لا يحل له التصرف فيه قبل أداء ضمانه، وكذا لوارثه، ثم الظاهر: أن حرمته على الورثة في الديانة لا الحكم.

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الحظر والإباحة(6/ 386)،ط. سعيد، كراتشي)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: والظاهر: أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور(1/ 34)، ط. المکتبة الأشرفیة)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

(قال): ولو أن رجلا ورث عن أبيه ألف درهم فأخذها بعد سنين فلا زكاة عليه.

(المبسوط للسرخسي:كتاب نوادر الزكاة (3/ 41)، ط. دار المعرفة،بيروت، تاريخ النشر: 1414هـ =1993م )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول.......ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك.

(الفتاوى الهندية: كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها (1/ 175)،ط. رشيديه، باكستان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں