بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میت کو تابوت سمیت قبر میں دفنا نا جائز ہے‎؟


سوال

 کیا میت کو تابوت سمیت قبر میں دفنا نا جائز  ہے‎؟

جواب

مسلمانوں کے لیے میت کو دفن کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کو کفن دے کر قبر میں زمین پر لٹا دیں اور تختے لگا کر مٹی ڈال دیں،  صندوق میں بند کرکے دفن کرنا مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے، نصاریٰ کا شعار ہے، البتہ  اگر کوئی  خاص ضرورت اور سخت حاجت پیش آجائےمثلاً: زمین کمزور ہے تو اس میں تابوت یعنی لکڑی کے صندوق میں میت  رکھ کر اتارنا جائز ہے، لیکن بلاضرورت اسلامی شعار کوچھوڑنا اور خواہ مخواہ صندوق پر کثیر  رقم خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ (مستفاد: کفایت المفتی ، ۴/ ۵۰ ، ۶۳ ط:دار الاشاعت)

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی معقول عذر  نہ ہو تو میت کو لکڑی کے تابوت میں بند کر کے دفن کرنا سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے،تاہم اگر عذر  ہو مثلاً  زمین کا نرم ہونا ،میت کا سالم نہ ہونا وغیرہ تو میت کو لکڑی کے تابوت میں رکھ کر دفن کرنے کی گنجائش ہے۔

درمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"ولا بأس باتخاذ تابوت له عند الحاجة) كرخاوة الأرض(قوله: ولا بأس باتخاذ تابوت إلخ) أي يرخص ذلك عند الحاجة، وإلا كره."

(کتاب الصلوۃ،باب صلاۃ الجنائز،ج:2،ص:234،235 ط : سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وحكي عن الشيخ الإمام أبي بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - أنه جوز اتخاذ التابوت في بلادنا لرخاوة الأرض قال: ولو اتخذ تابوت من حديد لا بأس به."

(کتاب الصلوۃ، الباب الحادی والعشرون،166/1، ط: مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)

البحر الرائق میں ہے:

"وإن تعذر اللحد فلا بأس بتابوت يتخذ للميت لكن السنة أن يفرش فيه التراب."

(کتاب الجنائز،208/2،ط:دار الکتاب الإسلامی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403100889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں