بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ماتم قرآن سے ثابت ہے ؟


سوال

شیعہ کہتے ہیں کہ ماتم کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور نعوذ باللہ کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد پاک بیبیوں نے پیٹنا شروع کر دیا نعوذ باللہ کیا یہ سچ ہے یا جھوٹ؟

جواب

"ماتم" عربی زبان کا لفظ ہے، دراصل کسی غم یا خوشی میں  مردوں اور عورتوں یا صرف عورتو ں کے اجتماع کو  "ماتم"  کہا جاتا ہے، پھر کسی کی موت پر عورتوں کے اجتماع کو "ماتم" کہاجانے لگا۔

ہمارے عرف میں میت پر نوحہ گری اور خلافِ شرع افعال  کرنے کو "ماتم" کہتے ہیں۔

قرآن کریم کی کسی بھی آیت سے ماتم کا ثبوت نہیں ہے بلکہ  احادیثِ مبارکہ سے ماتم کی ممانعت و حرمت ثابت ہوتی ہے ،باقی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اہل بیت نے غم کا اظہار کیا تھا لیکن اپنے آپ کو پیٹنا ثابت نہیں ۔

النہایۃ فی غریب الحديث و الاثر میں ہے :

"{ مأتم } ... في بعض الحديث [ فأقاموا عليه مَأتَماً ] المأتَم في الأصل : مُجْتَمَعُ الرجال والنساء في الحُزن والسُّرور ثم خُصَّ به اجتماع النساء الموت".

(ص:۴،ص:۲۸۸،المکتبۃ العلمیۃ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية»."

(باب الجنائز ،باب دفن المیت،ج:۱،ص:۵۴۱،المکتب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں