بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مساجد میں دینی تقاریب میں صوفے اور کرسیاں لگانا درست ہے؟


سوال

کیا مساجد میں دینی تقاریب میں صوفے اور کرسیاں لگانا درست ہے؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ کرسی پر تشریف فرما تھے، میرا خیال ہے کہ اس کے پائے لوہے کے تھے،  میں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر تم کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑ دو گے تو اللہ تعالی تمہیں اس سے بہتر عطا فرمائیں گے۔

 دوسری حدیث میں ہے کہ ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں مسافر اور ناواقف آدمی ہوں، مجھے اپنے دین کا علم نہیں ہے، ابورفاعہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو  خطبہ دینا موقوف کیا، اور منبر سے اتر کر کرسی پر تشریف فرماہوئے جس کے پائے لوہے کے بنائے گئے تھے، چناں چہ آپ ﷺ نے مجھے دین کی تعلیم دی، پھر لوٹ کر خطبہ شروع کیا۔

اس حدیث سے مسجدمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرسی استعمال کرنا ثابت ہوتا ہے،  لہذا اگر مساجد میں دینی تقاریب منعقد  کی جائیں اور اس میں بزرگ علماء بھی مدعو ہوں جن کا زمین پر بیٹھنا دشوار ہو تو   علماء کے بیٹھنے کے لیے چند کرسیاں یا  صوفے وغیرہ لگادیے جائیں تو اس کی گنجائش ہے، بلاضرورت  مسجد میں کرسیاں لگانا مسجد کے وقار  و اَدب کے خلاف معلوم ہوتاہے۔ لیکن جن تقاریب میں ضرورۃً کرسی یا صوفہ رکھا جائے، ایسی تقاریب میں مسجد کے احترام کا خوب خیال رکھنا چاہیے اور مسجد کے وقار کی پوری رعایت رکھی جائے، وگرنہ مسجد کی بے احترامی اور بے ادبی کی وجہ سے سخت گناہ ہو گا۔

كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال (3/ 797):
"عن أبي رفاعة عبد الله بن الحارث العدوي قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو على كرسي خلت أن قوائمه حديد، فسمعته يقول: إنك لن تدع شيئا لله إلا أبدلك الله خيرًا منه".

مسند ابن أبي شيبة (2/ 236، بترقيم الشاملة آليا):
"عن أبي رفاعة، قال : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب، فقلت : يا رسول الله ، إني لرجل غريب جاهل لايعلم ما دينه؟ قال: « فترك الناس ونزل، فقعد على كرسي جعلت قوائمه حديدًا، فعلّمني ديني، ثم رجع إلى خطبته»".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں