بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مرنے کے بعد جسم ٹھنڈا ہو جانے کی وجہ سے نیل پالش نہیں اتر سکتی؟


سوال

سننے میں آیا ہے کہ نیل پالش لگانے سے میت کو جب غسل دیں تو وہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مرنے کے بعد جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے ،پھر جسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے نیل پالش نہیں اتر سکتی ، تو کیا ایسا ہی ہے کہ نیل پالش نہیں اترتی ؟ جبکہ نیل پالش ریموور سے تو    اتر جاتی ہے. اس مسئلے کی طرف رہ نمائی فر ما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ ناخن انسانی جسم کا ایسا عضو ہے جس میں روح حلول نہیں کرتی، ان میں حیات نہیں ہوتی، اسی وجہ سے ان کو کاٹنے سے تکلیف نہیں ہوتی نہ ہی  جسم کے ٹھنڈا  ہونے کی وجہ سے ناخن پر کوئی  فرق پڑتا ہے، لہٰذا اگر میت کے ناخن سے پالش  کسی ایک  نیل پالش ریموور سے نہیں اتر رہی تو کسی اور ریموور کو استعمال کر کے پالش ہٹائی جائے، کیوں کہ   نیل پالش لگانے کی وجہ سے پانی نیچے تک نہیں پہنچتا، اس لیے وضو / غسل کرنے سے پہلے اس کو ہٹانا ضروری ہو گا، اور جب تک اسے صاف کر کے میت کا غسل مکمل نہ کیا جائے تب تک غسل دینے والوں پر غسل کی ذمہ داری باقی رہے گی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"غسل ‌الميت حق ‌واجب على الأحياء بالسنة واجماع الأمة، كذا في النهاية، ولكن إذا قام به البعض سقط عن الباقين، كذا في الكافي، والواجب هو الغسل مرة واحدة والتكرار سنة."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الفصل الثاني  في غسل الميت، ج:1، ص:158، ط: دار الفكر)

مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"ولنا أنه لا حياة فيها بدليل عدم الألم بقطعها كقص الظفر ونشر القرن وقطع طرف من الشعر وما لا تحلها الحياة لا يحلها الموت."

(كتاب الطهارة، فصل: تنزح البئر لوقوع نجس،ج:1، ص:33، ط:دار إحياء التراث العربي)

رد المحتار میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى.وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح

(قوله: إن صلبا) بضم الصاد المهملة وسكون اللام وهو الشديد حلية: أي إن كان ممضوغا مضغا متأكدا، بحيث تداخلت أجزاؤه وصار له لزوجة وعلاكة كالعجين شرح المنية.

(قوله: وهو الأصح) صرح به في شرح المنية وقال لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورة والحرج ا هـ. ولا يخفى أن هذا التصحيح لا ينافي ما قبله فافهم."

(كتاب الطهارة، فرض الغسل، ج:1، ص:155۔ ط: ايچ ايم سعيد)

الفقہ الحنفی و  ادلتہ میں ہے:

"و لا بد من زوال ما يمنع وصول الماء إلي الجسدكطلاء الأظافر و نحوها."

(كتاب الطهارة، فرائض الغسل، ج:1، ص: 55، ط:مكتبة الغزالي، دمشق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں