بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مارکیٹ میں فروخت ہونے والا گوشت حلال ہے؟


سوال

آج کل یہ بات کہی جارہی ہے کہ مارکیٹ میں جو گوشت فروخت ہورہا ہے وہ حلال جانور کا نہیں ہے ، تو پھر کیسے معلوم کیا جائے کے جو گوشت لیا جارہا ہے وہ حلال جانور کا ہے؟

جواب

 بلادِ اسلامیہ اور مسلمانوں کے بازاروں میں فروخت ہو نے والے گوشت کے بارے میں ظن ِغالب حلال ہونے کا ہے ، لہذااس کو خریدنا اور کھانا جائز  ہے ،لوگوں کی باتوں یا اکا دکا واقعات کی وجہ سے شبہات پھیلانا درست نہیں اور نہ  ہی تحقیق کرنا ضروری ہے ،ہاں اگر حرام گوشت کاچلن عام ہو جائے، یا آدمی کافروں کے علاقے میں ہو ، یا کسی آدمی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو  کہ یہ حلال و حرام دونوں طرح کا گوشت بیچتا ہے تو اس وقت  تحقیق کرنا لازم ہو گا  کہ اس جانور کو ذبح کرنے والا کون ہے ؟یہ گوشت کس جانور کا ہے؟

اگر تحقیق کے ذریعہ کسی خاص  جانور کے گوشت کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ یہ حرام ہے،جانور حرام ہے یاذبح کرے والا مسلمان نہیں یا اس نے  ذبح کے وقت بسم اللہ نہیں پڑھی  تو خاص وہی گوشت  حرام ہو گا  جس کی حرمت کی تحقیق ہوئی ہے ، اس کی وجہ سے مارکیٹ میں بکنے والے دیگر گوشت کے بارے میں شک کرنا درست  نہیں ۔

فتح الباری میں  ہے:

"ويستفاد منه أن كل ما يوجد في أسواق المسلمين محمول على الصحة وكذا ما ذبحه أعراب المسلمين لأن الغالب أنهم عرفوا التسمية وبهذا الأخير جزم بن عبد البر فقال فيه أن ما ذبحه المسلم يؤكل ويحمل على أنه سمى لأن المسلم لا يظن به في كل شيء إلا الخير حتى يتبين خلاف ذلك."

(کتاب الصید،باب ذبیحة الأعراب ونحوهم،ج:9، ص:635، ط:دار المعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في ‌أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام".

(کتاب البيوع ،الباب العشرون في البياعات،ج:3 ص: 210،ط:دارالفكر)

فتاوی  شامی میں ہے:

"بخلاف ‌الذابح في ‌بلاد ‌الإسلام فإن الظاهر أنه تحل ذبيحته وأنه سمى، واحتمال عدم ذلك موجود في اللحم الذي يباع في السوق، وهو احتمال غير معتبر في التحريم قطعا".

(كتاب الصيد، ج:6، ص: 476، ط:سعيدية)

وفیہ ایضاً:

"أن مجرد كون البائع مجوسيا يثبت الحرمة، فإنه بعد إخباره بالحل بقوله ذبحه مسلم كره أكله فكيف بدونه تأمل".

(کتاب الحظر والإباحة ،ج  :6 ،ص :344 ،ط : سعيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں