بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مرحوم کی طرف سے روزوں کی قضا کی جا سکتی ہے؟


سوال

کیا مرحومہ کی جانب سے اولاد اور قریبی رشتہ دار روزہ کی قضا ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ روزہ بدنی عبادت ہے اور بدنی عبادت کا مقصد جسم کو اللہ کی عبادت میں لگانا ہے، اگر کسی نے فرض روزے چھوڑے ہوں تو اس کا حکم یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خود اُس کو قضا کرے، تاکہ بدنی عبادت کا مقصد فوت نہ ہو اور اگر زندگی میں قضا نہ کر سکا اور انتقال ہو گیا  تو اگر اس نے اپنے قضا شدہ روزوں  کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے روزوں کا فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔ بہرحال مرحومہ کی اولاد یا دیگر رشتہ داروں کے روزہ رکھنے سے مرحومہ کا ذمہ فارغ نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 597):

"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر)".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں