بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مرد اپنی بیوی کو میکہ جانے سے روک سکتا ہے؟


سوال

ایک گھر میں آپریشن سے بچہ پیدا ہوا ہے،شوہرگھر کی دیکھ بھال اور بچے کی نگرانی اور پرورش کےلیے گھر میں د و لیڈی ملازمہ رکھنے کو تیار ہے،لیکن لڑکی کے والدین یہ چاہتے ہیں کہ لڑکی ہمارے ہاں رہے،جب کہ لڑکا اس کی اجازت نہیں دیتا،اس کے باوجود لڑکی کے والدین بیوی اور بچے کو زبردستی لے جاتے ہیں،تو کیا یہ عمل جائز ہے؟جب کہ وہ لڑکی کی والدہ اور دو لیڈی ملازماؤں کو بھی گھر میں رکھنےکےلیے تیار ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرد کو اس بات کا اختیار حاصل ہےکہ وہ عورت کواپنے والدین کے گھر میں رکنے  اور رہنےسے منع کردے،اور شوہر کے منع کرنے کے باوجود بیوی کے والدین کے لیےاسے زبردستی اپنے گھر میں رکھنے پر اصرار کرناشرعاًدرست نہیں،خصوصاًجب کہ شوہر بیوی کی تمام ضروریات کا انتظام بھی کررہا ہو،لہذا لڑکی کے والدین پر لازم ہےکہ وہ فوراًشوہر کی منشا کے مطابق بیٹی کو شوہر کے گھر پر پہنچا آئیں،شوہر کی رضا مندی کے بغیر عورت اگر اپنے میکے میں رہے گی تو گناہگار ہوگی اور شوہر پر شرعاًاس کا نان نفقہ بھی لازم نہیں رہےگا،فریقین کوشش کریں کہ افہام و تفہیم سے معاملہ کا حل نکل آئےاور اس تنازع کے اتنی شدت نہ دیں کہ گھر بسانا مشکل ہوجائے۔

رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"(ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ...(ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى.

وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن...والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف...(قوله ويمنعهم من الكينونة) الظاهر أن الضمير عائد إلى الأبوين والمحارم (قوله وفي نسخة من البيتوتة إلخ) وبه عبر في النهر، وتعبير منلا مسكين يؤيد النسخة الأولى، ومثله في الزيلعي والبحر، ويؤيده ما مر من التعليل بأن الفتنة في المكث وطول الكلام."

(ص:٦٠٢،ج:٣،كتاب النفقة،مطلب في الكلام على المؤنسة،ط:ايج ايم سعيد)

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر"میں ہے:

"ولا نفقة لناشزة: أي عاصية ما دامت على تلك الحالة ثم وصفها على وجه الكشف فقال :خرجت الناشزة من بيته خروجا حقيقيا أو حكميا بغير حق وإذن من الشرع، قيد به؛ لأنها لو خرجت بحق كما لو خرجت لأنه لم يعط لها المهر المعجل أو لأنه ساكن في مغصوب أو منعته من الدخول إلى منزلها الذي يسكن معها فيه بحق كما لو منعته لاحتياجها إليه وكانت سألته أن يحولها إلى منزله أو يكتري لها منزلا آخر، ولم يفعل لم تكن ناشزة وقيد بالخروج؛ لأنها لو كانت مقيمة معه ولم تمكنه من الوطء لا تكون ناشزة؛ لأن البكر لا توطأ إلا كرها...وفي القهستاني فمن النواشز ما إذا منعت نفسها لاستيفاء المهر بعد ما سلمتها كما قالا ."

(ص:٤٨٩،ج:١،کتاب الطلاق،باب النفقة،ط:دار إحياء التراث العربي)

"ألفتاوى الهندية"میں ہے:

"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الإحتباس قائم."

(ص:٥٤٥،ج:١،کتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات،ط:دار الفکر،بیروت)

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ہے:

’’شوہر کو حق ہےکہ اپنی بیوی کو مستقل طور پر ہمیشہ کے لیے اپنے مکان پر رکھے،اس کی اجازت نہ دے کہ وہ والدین کے مکان پر جاکر رہے،لیکن والدین سے ملنے کو منع نہ کرے،جب وہ آکر ملنا چاہیں تو ان کو اجازت دے دے،۔۔۔اور کبھی کبھی بیوی کو اجازت دے دے کہ وہ والدین کی زیارت کر آیا کرے۔۔۔‘‘

(ص:٥٨٦،ج:١٨،باب احکام الزوجین)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں