ہمارے ایک عزیز کی ماہانہ تنخواہ دس ہزار روپے ہے ،اس کے علاوہ ان کی ایک چھوٹی سی دکان ہے ، جس کی کل قیمت بشمول مال اور نقد و ادھار رقم کے چالیس ہزار روپے ہے ، ان کے اوپر تقریباً پونے دو لاکھ روپے کا قرض بھی ہے تو کیا وہ زکوٰۃ کی رقم سے قرض خواہوں کو ان کا حق ادا کر سکتے ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہو،اور اس کے پاس ضرورت اور استعمال سے زائد سامان نہ ہو یا اتنا ہو کہ قرض کی مقدار منہا کرنے کے بعد اتنا مال اور سامان نہ بچےجس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو ان کے لیے زکوۃ کی رقم لینا اور اس سے قرضے ادا کرنا جائز ہے،زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ اداہوجائے گی ۔
نوٹ: یہ جواب محض شرعی مسئلہ کا بیان ہے، سفارش یا تصدیق نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"باب المصرف أي مصرف الزكاة ۔۔۔۔ومديون لايملك نصاباّ فاضلا عن دينه ،وفي الظهيرية : الدفع للمديون أولي منه للفقير."
قوله : (أولى منه للفقير) أي أولى من الدفع للفقير الغير المديون لزيادة احتياجه."
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 343، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144309100591
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن