بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میں ہندو ہوں؟ کہنے کا حکم اور عدت میں رجوع کرنا


سوال

جامعہ ہذا سے والد صاحب نے ايك استفتاء ليا تھا جو ساتھ منسلک ہے، اس میں کچھ باتیں پوچھنی ہیں کیوں کہ اس میں کچھ باتیں غلط لکھ دی گئی تھیں۔ والد صاحب نے جب والدہ سے یہ جملہ کہا کہ، کیا حرکت ہے تم میری موجودگی میں میری اجازت کے بغیر ایک غیر محرم کو گھر کے اندر لا رہی ہو تم مسلمان ہو؟ تو والدہ نے جواب میں کہا " تو کیا میں ہندو ہوں؟" یہ نہیں کہا کہ " میں ہندو ہوں" اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت  میں بھی تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری ہے؟ 

والد صاحب نے دوسری طلاق 21 جون 2021 کو دی۔ اس کے بعد والد صاحب نے والدہ سے فون 15 ستمبر کو بات کی۔ والد نے کہا کہ گھر آجاؤ۔ والدہ نے کہا کہ پہلے ہم باہر ملیں گے، پھر 17 ستمبر کو والد اور والدہ باہر ایک پارک میں ملے اور آپس میں گلے شکوے کیے اور صلح ہوگئی اور والد صاحب نے ان سے رجوع کرلیا پھر 18 ستمبر کو والدہ گھر آگئی اور والد کے ساتھ وقت گزارا۔ پھر 19 ستمبر کو والد ناراض ہوکر چلے گئے اور اب 19 اکتوبر کو واپس آگئے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا رجوع ہوگیا تھا یا نہیں کیوں کہ 3 ماہواریاں طلاق کے بعد سے مکمل نہیں ہوئیں تھیں والدہ حاملہ بھی نہیں تھیں بلکہ تیسری ماہ واری چل رہی تھی۔   

جواب

صورتِ مسئولہ ميں سائل كی والده نے اگر واقعۃً والد کے مذکورہ سوال پر یہی  جملہ کہا تھا " تو کیا میں ہندو ہوں؟" یہ جملہ چوں کہ ہندو ہونے کا اقرار نہیں ہے بلکہ استفہام ہے اور گفتگو کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ استفہام انکار کے لیے تھا، اس لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔  

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما ركنها، فهو إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد وجود الإيمان، إذ الردة عبارة عن الرجوع عن الإيمان، فالرجوع عن الإيمان يسمى ردة في عرف الشرع"۔

(فصل فی بیان احکام المرتدین، کتاب السیر، ص/134، ج/7، ط/رشیدیہ)

مختصر المعانی میں ہے:

"ثم ان هذه الكلمات الاستفهامية كثيراّ ما تستعمل في غير الاستفهام مما يناسب المقام بحسب معونة القرائن كالاستبطاء  والانكار، كذلك نحو اغير الله تدعون"۔ 

(الانشاء، ص/220، ط/رشیدیہ)

2. والد صاحب  نے اگر واقعۃً عدت کے دوران رجوع کیا ہو (یعنی تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے) تو یہ رجوع جائز ہوگا، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے، البتہ والد صاحب کو آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق ہوگا۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"         واذا طلق الرجل امراته تطلیقة رجعیة او  تطلیقتین  فله ان یراجعها فی عدتها رضیت بذلک او لم ترض کذا فی الهدایة"۔

(الباب السادس فی الرجعة، کتاب الطلاق، ص/470، ج/1، ط/رشیدیه)

بدائع الصنائع میں ہے:

     "    أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا،"۔

(فصل فی حکم الطلاق، کتاب الطلاق، ص/491، ج/4، ط/رشیدیه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144303100861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں