بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مہر میں مکان لکھنے سے عورت اس پلاٹ کی مالک شمار ہو گی؟


سوال

 زید نے نکاح کے وقت اپنی بہو کے نام پانچ مرلے مکان آباد لکھا زید کی تحریر کچھ یوں ہے:

“ میں زید اپنی جانب سے ایک مکان آبادبمعہ صحن و راستہ آمد و رفت تعدادی پانچ  مرلے واقعہ محلہ و ضلع فلاں اور مبلغ دس ہزار روپیہ حق مہر موجل (عند الطلب) بحق بہو مسماۃ مذکوریہ عائشہ کے نام حق مہر کے طور پر لکھتا ہوں،  جس کی میری بہو موجودہ تاریخ سے مکمل مالکہ و قابضہ تصور ہوگی۔ اور آج کے بعد مذکورہ حق مہر کے ساتھ میرا یا میرے دیگر ورثاء  بازگشت کا کوئی واسطہ/سروکار باقی نہ رہا۔“ 

یہ تحریر عقدِ  نکاح کے وقت سٹامپ پیپر پر لکھی گئی اور دو گواہان بھی موقع پر موجود تھے،  سوال یہ پوچھنا تھا کہ کیا مسماۃ عائشہ شریعت  کی رو سے اس پانچ مرلے جائداد کی مالکن تصور ہوگی یا نہیں؟

جواب

اگر کسی عورت کا مہر مکان  کی صورت میں دینا طے پایا ہو  تو ضروری ہے کہ وہ مکان  اس عورت کے نام لکھنے کے ساتھ ساتھ  مکمل  قبضہ اور تصرف کے  ساتھ اس عورت کے حوالہ کر دیا جائے، ایسا کرنے کے بعد ہی وہ عورت اس مکان  کی مالک شمار ہو گی،  جب تک قبضہ تام نہ ہو گا اُس وقت تک عورت اس مکان کی مالک نہ بنے گی۔

پھر  مکان کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ   اگر اس مکان میں اپنا سامان موجود ہو تو اس کو نکال دیا جائے، اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس میں سے نکل جائے،  اگر  اس مکان میں مالک  موجود ہو  یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ  مکان مہر میں لکھ دے تو محض مہر میں لکھ دینے سے عورت کی ملکیت نہیں آئے گی، خالی کر کے دینا ضروری ہو گا۔

فتاوى  تاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(14/431،  فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ، ط؛ زکریا، دیوبند، دہلی)

وفیہ ایضا:

"وفي الفتاوى العتابية : ولو وهبه فارغًا وسلم مشغولًا لم يصح ولايصح قوله: أقبضها أو سلمت إليك إذا كان الواهب فيه أو أهله أو متاعه".

(14/431،  فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ، ط؛ زکریا، دیوبند، دہلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں