بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مدرسے کے ایک حصے کو کرایہ پر دے کر آمدنی کو مدرسے کے اخراجات میں استعمال کرسکتے ہیں؟


سوال

میں نے دو چھت مدرسہ بنا کر وقف کر دیا ،نیچے کے حصے میں بچے قران مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس میں 3 اساتذہ ہیں جب کہ اوپر  کی چھت خالی ہے ،سو بچے اوپر آ سکتے ہیں اور سو نیچے ۔اب سوال یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اوپر کی چھت کو کرایہ پر دے کر آنے والے کرایہ کو نیچے کے حصہ میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں میں دوں ،تو کیا میرا یہ عمل ٹھیک ہے؟جب کہ میں ایک مرتبہ اس کو وقف کر چکا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل  کےلیے درج ذیل   شرائط کے ساتھ وقف مدرسہ کی ایک منزل کو کرایہ پر دے کر ،اس سے حاصل آمدن کو بقیہ مدرسے كے اخراجات میں خرج کرنا  جائز ہے :

1)  کرائے پر دینے والا واقف ( وقف کرنے والا ) یا اس کی طرف سے متعین نگران ہو۔

2)    کرایہ رائج کرایہ سے کم نہ ہو۔

3)  کرائے کا معاہدہ سال بھر سے زیادہ کا نہ ہو۔

الاختيار لتعليل المختارمیں ہے :

"والمتأخرون قالوا: لا يجوز أكثر من سنة لئلا يتخذ ملكا بطول المدة فتندرس سمة الوقفية ويتسم بسمة الملكية لكثرة الظلمة في زماننا وتغلبهم واستحلالهم، وقيل: يجوز في الضياع ثلاث سنين وفي غير الضياع سنة وهو المختار ; لأنه لا يرغب في الضياع أقل من ذلك، ولا تجوز إجارته إلا بأجر المثل دفعا للضرر عن الفقراء، فلو آجره ثلاث سنين بأجرة المثل ثم ازدادت لكثرة الرغبات لا تنقض الإجارة ; لأن المعتبر أجر المثل يوم العقد، وليس للموقوف عليه ‌إجارة ‌الوقف إلا أن يكون وليا من جهة الواقف أو نائبا عن القاضي."

‌‌(كتاب الوقف،ج3،ص47 ،ط: مطبعة الحلبي)

اسعافمیں ہے :

"لو وقف أرضا له على زيد ونسله وعقبه ووقف أرضا أخرى على وجوه سماها وعلى أن ينفق من غلتها على الأرض الأخرى في عمارتها وإصلاحها صح."

(باب وقف أرضين على جهتين واشتراط النفقة من غلة أحدهما على الأخرى أ،ص137،ط: طبع بمطبعة هندية بشارع المهدى بالأزبكية بمصر المحمية )

و فیہ ایضاً :

"ولو لم يذكر في صك الوقف إجارته فرأى الناظر إجارته أو دفعه مزارعة مصلحة قال الفقيه أبو جعفر رحمه الله ما كان أدر على الوقف وأنفع للفقراء جاز له فعله إلا أن في الدور لا تؤجر أكثر من سنة لأن المدة إذا طالت تؤدي إلى إبطال الوقف فإن من رآه يتصرف فيها تصرف الملاك على طول الزمان يظنه مالكا."

(باب إجارة الوقف ومزارعته ومسافاته،ص63، طبع بمطبعة هندية بشارع المهدى بالأزبكية بمصر المحمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں