بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مدینہ میں کرونا وائرس داخل ہوسکتا ہے؟


سوال

 کیا کرونا اور طاعون کو بطور وبا ایک ہی تصور کرتے ہوئے یہ بات کہنا درست ہے کہ کرونا بھی طاعون کی طرح مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا؟ جب کہ خبریں یہ ہیں کہ  مدینہ منورہ  میں  بھی کرونا کے کیس سامنے آئے ہیں!

جواب

مدینہ منورہ میں کسی وبائی مرض کا آجانا احادیثِ  مبارکہ کے خلاف نہیں ہے؛ کیوں کہ احادیث میں جہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مدینہ منورہ میں "طاعون" داخل نہیں ہوسکتا، وہ ایک خاص بیماری ہے، اس میں تمام وبائی امراض داخل نہیں ہیں۔اس کی  تائید بخاری شریف کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے  زمانۂ خلافت  میں  مدینہ منورہ میں ایسے وبائی مرض ہونے کا ذکر ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی وفات ہورہی تھی :

صحيح البخاري (3 / 169):

"عن أبي الأسود، قال: أتيت المدينة وقد وقع بها مرض وهم يموتون موتًا ذريعًا، فجلست إلى عمر رضي الله عنه، فمرت جنازة، فأثني خيرا، فقال عمر: وجبت، ثم مر بأخرى، فأثني خيرًا، فقال: وجبت، ثم مر بالثالثة، فأثني شرًّا، فقال: وجبت، فقلت: وما وجبت يا أمير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال النبي صلى الله عليه وسلم: «أيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة» ، قلنا: وثلاثة، قال: «وثلاثة» ، قلت: واثنان، قال: «واثنان» ، ثم لم نسأله عن الواحد."

ترجمہ :حضرت  ابوالاسود سے روایت ہے کہ میں مدینہ آیا اور وہاں ایک بیماری پھیلی ہوئی تھی جس سے لوگ جلد مر جاتے تھے، پس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی، حضرت عمر ؓنے فرمایا: واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرا جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: واجب ہوگئی، پھر تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: واجب ہوگئی، میں نے پوچھا! اے امیرالمومنین کیا واجب ہوگئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسی طرح کہا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس مسلمان کی نیکی کی چار آدمی گواہی دے دیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے،ہم نے پوچھا اور تین میں بھی؟ تو انہوں نے فرمایا: تین میں بھی، میں نے پوچھا کیا دو میں بھی؟ انہوں نے کہا: اور دو میں بھی، پھر ہم نے ان سے ایک کے متعلق نہیں پوچھا۔

بعض محدثین فرماتے ہیں کہ  مدینہ میں وباء کا داخل نہ ہونا  یہ خاص ہے اور اس کا تعلق  دجال کے ظاہر ہونے کے وقت ہو گا۔

فتح الباري لابن حجر (10 / 190):

"وقد أجاب القرطبي في المفهم عن ذلك فقال المعنى لا يدخلها من الطاعون مثل الذي وقع في غيرها كطاعون عمواس والجارف وهذا الذي قاله يقتضي تسليم أنه دخلها في الجملة وليس كذلك فقد جزم ابن قتيبة في المعارف وتبعه جمع جم من آخرهم الشيخ محيي الدين النووي في الأذكار بأن الطاعون لم يدخل المدينة أصلا ولا مكة أيضا لكن نقل جماعة أنه دخل مكة في الطاعون العام الذي كان في سنة تسع وأربعين وسبعمائة بخلاف المدينة فلم يذكر أحد قط أنه وقع بها الطاعون أصلاولعل القرطبي بنى على أن الطاعون أعم من الوباء أو أنه هو وأنه الذي ينشأ عن فساد الهواء فيقع به الموت الكثير وقد مضى في الجنائز من صحيح البخاري قول أبي الأسود قدمت المدينة وهم يموتون بها موتا ذريعا فهذا وقع بالمدينة وهو وباء بلا شك ولكن الشأن في تسميته طاعونا والحق أن المراد بالطاعون في هذا الحديث المنفي دخوله المدينة الذي ينشأ عن طعن الجن فيهيج بذلك الطعن الدم في البدن فيقتل فهذا لم يدخل المدينة قط فلم يتضح جواب القرطبي".

کرونا وائرس وبا ہے جو طاعون کے مفہوم میں داخل ہے، لیکن خاص طاعون نہیں ہے۔اللہ پاک مدینہ طیبہ کو اس وبا سے محفوظ رکھے، لیکن اگر یہ وبا وہاں داخل ہوگئی تو حدیث شریف کے خلاف نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں