بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مالِ تجارت کی زکوۃ اخراجات منہا کرنے سے پہلے ادا کی جائے گی یا بعد میں؟


سوال

1. بندہ جوتے کی تجارت کرتا ہے، مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے جو مال ہمارے پاس موجود ہوتا ہےجب ہم حساب کریں گے تو اس کی قیمت قیمتِ خرید کے حساب سے لگائیں گے؟ یا قیمتِ فروخت کے اعتبار سے؟

2. دوسرا مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ اگر قیمتِ فروخت لگاتے ہیں جس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ہمارے پاس مال پانچ کروڑ کا ہوتا ہے تو ہم اس کی قیمتِ فروخت دس کروڑ لگاتے ہیں، یہ قیمت ملازمین کی تنخواہیں، دکانوں وغیرہ کے خرچوں کو سامنے رکھ کر لگائی جاتی ہے، یہ سارے خرچے نکالنے کے بعد جو نفع ہمیں بچتا وہ ڈیڑھ کروڑ بچتا ہے، قیمتِ فروخت کے پانچ کروڑ میں سے ساڑھے تین کروڑ خرچوں وغیرہ میں چلے جاتے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا ہم زکوۃ دس کروڑ کے حساب سے نکالیں گے؟ واضح رہے کہ یہ مال جو ہمارے پاس موجود ہیں، یہ فوراً فروخت نہیں ہوتا، اس کے فروخت ہونے میں سات آٹھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ 

جواب

1. زکوۃ ادا کرتے وقت مالِ تجارت کی قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوتا ہے، قیمتِ خرید کا نہیں، مثلاً اگر آپ کے پاس پانچ کروڑ کی مالیت کا خریدا ہوا مال ہے اور اس کی قیمتِ فروخت دس کروڑ ہے تو آپ نے دس کروڑ کی زکوۃ نکالنی ہے۔

2. واضح رہے کہ زکوۃ کی ادائیگی سے پہلے وہ اخراجات منہا کیے جاتے ہیں جو ذمہ پر لازم ہونے کی وجہ سے قرض بن چکے ہوں اور جو اخراجات ابھی تک ذمہ پر لازم نہ ہوئے ہوں وہ اخراجات منہا نہیں کیے جاتے، لہذا اگلے مہینوں کی ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ کی نوعیت ایسی نہیں کہ وہ ابھی ذمہ پر لازم ہو چکی ہوں، بلکہ وہ مستقبل میں لازم ہوں گی؛ اس لیے زکوۃ میں وہ تنخواہیں منہا نہیں کی جائیں گی اور زکوۃ پوری قیمت (دس کروڑ) کی لازم ہو گی۔

مال کے فوراً فروخت ہونے اور بعد میں فروخت ہونے سے جواب پر کوئی فرق نہ پڑے گا، بہر دو صورت جواب یہی ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے؛

"(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح."

(كتاب الزكوة، باب زكوة الغنم، جلد:2، صفحه: 286، طبع: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ان الواجب الا صلی عندهما هو ربع عشر العین، وانما له ولایة النقل الی القیمة یوم الاداء فیعتبر قیمتهما یوم الاداء، والصحیح ان هذا مذهب جمیع اصحابنا."

(کتاب الزکاۃ‘ فصل واما صفۃ الواجب فی اموال التجارۃ، جلد:2، صفحہ: 22، طبع : سعید )

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"قیمت لگا کر دینا ہو تو جو قیمت زکاۃ  نکالنے کے وقت چاندی کی وہاں کے بازار میں ہو  اس حساب سے ادا کرے،خرید کے دن کا حساب معتبر نہیں ہوگا۔"

(کتاب الزکوۃ، چوتھا باب: سونا، چاندی اور نقد کی زکوۃ، جلد:6، صفحہ:86، طبع: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں