میرے بیٹے نے دو گواہوں کے سامنے طلاق کے کاغذات(طلاق نامہ) پر دستخط کیے، مگر لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ لکھی ہوئی طلاق نہیں ہوتی، آپ رہنمائی فرمائیں کیا واقعتاً لکھی ہوئی طلاق نہیں ہوتی؟
جس طرح زبانی طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے اسی طرح زبان سے کچھ کہے بغیر لکھنے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے، لہذا لڑکی والوں کا کہنا کہ ’’لکھی ہوئی طلاق نہیں ہوتی‘‘ غلط ہے، منسلکہ طلاق نامہ کی رُو سے تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور نکاح ختم ہوچکا ہے، اب رجوع کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ مطلقہ شوہر کے لیے حرام ہوچکی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها."
(کتاب الطلاق، الباب الثاني ، الفصل السابع،1/ 379، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."
(کتاب الطلاق،مطلب في الطلاق بالكتابة،3/ 246، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100432
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن