بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا لاپتہ شخص وارث بن سکتا ہے؟


سوال

کسی شخص کے انتقال کے وقت مرحوم کے ایک بیٹا ۔ ایک بیٹی۔اور ایک لا پتہ بیٹے کی بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹے کو لاپتہ ہوئے 25سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے ۔ تو  سوال یہ ہے کہ کیا مرحوم کے ترکہ  میں لاپتہ شخص کے وارثوں کو کچھ حصہ ملے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ مفقود اس آدمی کو کہا جاتاہے جو اپنے اہل وعیال سے غائب ہوگیا ہو  ، پھر اس کے زندہ ہونے یانہ ہونے کی  کوئی خبر نہ ہو، تو ایسے آدمی  کو اپنی ذات کے حق میں زندہ تصور کیا جائے گا ، یعنی  اس  کی  بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی اور اس کی میراث ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوگی، البتہ لاپتہ شخص کو میت اس وقت تصور کیا جائے گا جب یہ اپنی پیدائش کے وقت سے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے اس کے بعد متعلقہ عدالت سے  اس کی موت کا سرٹیفکٹ لے لیا جائے ، بعد ازاں اس  مفقود کا اپنا ذاتی متروکہ مال  اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہو گا ،اور کسی مورث کے انتقال کے بعد اس کاجو حصہ محفوظ رکھا گیا تھا وہ مورث کے ان ورثاء میں تقسیم ہو گا جو مورث کے انتقال کے وقت زندہ تھے ۔

فتح القدیر میں ہے:

"قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. ‌وعندي ‌الأحسن ‌سبعون لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا، وقال بعضهم: يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."

(كتاب المفقود، 149/6،دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں