بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا لمبے اور گھنے بال والی عورت کا غسل میں صرف جڑ تک پانی پہنچانا کافی ہے؟


سوال

اگر کسی  عورت نے  غسل کے دوران  چوٹی نہ بنائی ہوئی ہو، لیکن اس کے بال بہت گھنے اور لمبے ہوں تو  اس کا حکم دھونے میں چوٹی بنائے ہوئے بالوں کی طرح ہے؟ یا اس میں پورے کے پورے بالوں کا دھونا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فقہاء کرام نے جو حکم چوٹی بنائے ہوئے بالوں سے متعلق ذکر فرمایا ہے   وہ حکم اُسی صورت کے  ساتھ  خاص ہے، اگر کسی عورت نے چوٹی نہ بنائی ہوئی ہو تو ایسی عورت کے  لیے حکم یہ ہی ہے کہ وہ  فرض غسل میں اپنے سر کے مکمل بالوں کو تر کرے، اگرچہ اس کے بال لمبے اور گھنے ہی کیوں نہ ہوں،  مکمل بالوں کو تر  کیے اور دھوئے بغیر اس کا فرض غسل صحیح نہ ہو گا۔

شرح فتح القدير (1/ 58):

"قوله: وليس على المرأة أن تنقض ضفائرها هذا فرع قيام الضفيرة فلو كانت ضفائرها منقوضة فعن الفقيه أبى جعفر يجب إيصال الماء إليه."

الفقه الإسلامي وأدلته (1/ 461):

"وهل يجب نقض ضفائر الشعر؟ للعلماء آراء متقاربة: قال الحنفية: يكفي بل أصل الضفيرة  أي شعر المرأة المضفور، دفعا للحرج، أما المنقوض، فيفرض غسله كله اتفاقًا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200862

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں