بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی کے نام مکان خریدنے سے اس کی ملکیت ہوجاتی ہے؟


سوال

میں نے ایک مکان  1974ء  کو اپنے بھائی کے نام    14250 روپے میں خریدا ، اس میں  میری نیت  بھائی کو مالک بنانے کی نہیں تھی، کچھ عرصہ   اس میں  رہا  ، میرے اس  بھائی  کی رہائش کی انتظام  نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے بھائی کو رہائش کےلیے دے دیا، لیکن وقت گزرنے کے  بعد اس نے   اس مکان پر دعوی کیا کہ یہ مکان میرا ہے ، آخر کار 2020ء کو بھائی نے   مجھے   14250 روپے ارسال کیے   اور  کہا  کہ جو گھر آپ نے     خرید کردیا تھا یہ اس کی قیمت ہے ۔

            شرعًا اب یہ مکان میری ملکیت ہے یا اس کی ؟    اگر  شریعت میں  اس کی ملکیت  ہے  ، تو  مجھے موجودہ زمانے کی قیمت ادا کی جائےگی یا اس زمانے کی قیمت؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتًا  سائل نے جو مکان اپنے   بھائی    کے نام    خریدا تھا  ، اس میں بھائی  کو مالک بنانے کی  نیت نہیں تھی، اس کے بعد جب اپنے بھائی کو دیا تو  صرف   رہائش کے لیے  دیا تھا   مالک بناکر نہیں   دیا تھا تو   بھائی کےصرف نام کروانے سے   یہ گھر اس کی ملکیت میں   نہیں  آیا،بلکہ یہ  گھر بدستور سائل کی  ملکیت  ہے   ،   سائل کے بھائی   کے لیے    اس گھر پر قبضہ کرنا   ناجائز اور حرام ہے۔

بھائی کا اگر اس کے علاوہ کوئی مؤقف ہے ،اور وہ گھر پر ملکیت کا دعوی کررہا ہے تو بہتر یہ ہے کہ دونوں اپنے درمیان کسی کو ثالث مقرر کرکے  فیصلہ کروالیں ۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

من اقتطع أرضا ظالما، لقي الله وهو عليه غضبان۔               

ترجمہ:جس نے ظلمًا کسی کی  زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہوں گے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔  (صحيح مسلم (1/ 124)

ایک اور حدیث میں ہے:

"عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلمًا، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين»

صحيح مسلم (3/ 1230)

ترجمہ:جس کسی نے زمین کی ایک بالشت (بھی)ناحق روک لی ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سات زمینوں سے اس کاطوق (بناکر)پہنائے گا۔

اور فرمایا

"لایحل لامرئ أن یأخذ مال أخیه بغیر حقه، وذلك لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم."

(مسند أحمد بن حنبل۵/۴۲۵، رقم:۲۴۰۰۳)

ترجمہ؛کسی  کے لیے حلال نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کا   مال ناحق طریقہ  سے لے،اور  یہ اس  لیے کہ اللہ تعالی نے مسلمان کے مال کو مسلمان پر  حرام  قرار دیا ہے۔

الدر المختار   (5/ 689) ميں  ہے:

"‌بخلاف ‌جعلته ‌باسمك فإنه ليس  بھبة وكذا هي لك حلال إلا أن يكون قبله كلام يفيد الهبة خلاصة."

                                                فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں