بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کوئی نبی کریمﷺ کی مخصوص انگوٹھی ہے جسے پہننے سے منع فرمایا گیا ہے؟


سوال

میں ایک انگوٹھی مدینے سے لایا جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ نقش ہے. مجھے کسی نے بتایا کہ حضور یہ انگوٹھی خود پہنتے تھے اور دوسروں کو پہننے سے منع فرمایا ہے. کیا یہ بات سچ ہے؟ میں یہ انگوٹھی پہنوں یا نہیں؟

جواب

نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں نبی کریمﷺ کی انگوٹھی پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ نقش تھا، یہی انگوٹھی آپﷺ کی مہر بھی تھی اور  چوں کہ صحابہ کرام نبی کریمﷺ کی ممکنہ حد تک ہر چیز میں اتباع کرتے تھے، تو نبی کریمﷺ نے اپنی مہر کے مماثل نقش والی انگوٹھی پہننے سے صحابہ کرام کو منع فرمایا۔

شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ یہ ممانعت نبی کریمﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی؛ کیوں کہ بعد میں خلفاء راشدین سے بھی اس کا استعمال منقول ہے، لہذا اس کا استعمال جائز ہے، تاہم ہر شخص کے لیے ایسی انگوٹھی بنانا مناسب نہیں ہے، خلفاءِ راشدین چوں کہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے حکم ناموں میں یہ مہر استعمال کرتے تھے۔  بہرحال اگر کوئی مرد چاندی کی ساڑھے چار ماشے سے کم وزن کی انگوٹھی میں یہ نقش لکھواتاہے تو اسے پہن سکتاہے، البتہ بیت الخلا یا غسل خانے میں جانے سے پہلے اسے اتار لے، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جانے سے پہلے انگوٹھی مبارک اتار لیا کرتے تھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2796):
"قال النووي: وسبب النهي أنه صلى الله عليه وسلم إنما نقش على خاتمه هذا القول؛ ليختم به كتبه إلى الملوك، فلو نقش غيره مثله لدخلت المفسدة وحصل الخلل اهـ. وإنما نهاهم عنه؛ لأنه علم أمما سيتابعونه في هذا كما هي عادتهم في كمال المتابعة، فأجازهم باتخاذ الخاتم على ما هو المفهوم من ضمن النهي، ونهاهم عن مجرد النقش الخاص لما يفوته من الحكمة والمصلحة العامة".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14 / 210):
"وقال شيخنا، رحمه الله: نهيه صلى الله عليه وسلم أن ينقش أحد على نقش خاتمه خاص بحياته، ويدل عليه لبس الخلفاء الخاتم بعده، ثم تجديد عثمان، رضي الله تعالى عنه، خاتمًا آخر بعد فقد ذلك الخاتم في بئر أريس، ونقش عليه ذلك النقش". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144107200933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں