بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رمضان 1446ھ 15 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی دوسرے شخص کو دیکھ کر اس کے خریدے ہوئے مال جیسا مال خریدنا غلط ہے؟


سوال

دو دوست آپس میں کسی کمپنی سے مال خرید رہے ہیں، ایک علیحدہ ورائٹی خرید رہا ہے اور دوسرا علیحدہ، اب کئی سال گزرنے کے بعد (تقریباً بیس بائیس سال) اب دوسرا دوست لالچ میں آکر پہلے والے دوست کی ورائٹی (یعنی وہ جو مال خرید رہا تھا) بھی اٹھانا شروع کردے تو کیا ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے؟ اور کیا اس کی کمائی ٹھیک ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مقدسہ نے کسی تاجر پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ فلاں مال کی تجارت کر سکتا ہے اور فلاں مال کی تجارت نہیں کر سکتا، بلکہ تاجر کو اپنی تجارت میں پورا اختیار دیا ہے کہ حلال اموال میں سے جو مال چاہے اس کی خرید و فروخت کرے، اتنا خیال رہے کہ جو شرائط شرع نے بیان کی ہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر دو دوست ایک لمبے عرصہ تک مختلف معیار کا مال خریدتے رہے، اب دوسرا دوست اس معیار کا مال بھی خریدنے لگے جو اس کا دوست خرید رہا تھا  جب کہ   وہ خود پہلے اس معیار کا مال نہیں خریدتا تھا، تو ایسی صورت میں پہلے والے دوست کی ورائٹی خریدنے میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں، اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے اور اس کی کمائی بھی حلال ہے۔ البتہ  دوست کے بارے میں  دل میں حسد کے جذبات نہ رکھے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(كتاب البيوع وفيه عشرون بابا) (الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه) أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي كذا في الكافي وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء كذا في محيط السرخسي وأما شرطه فأنواع أربعة شرط الانعقاد وشرط النفاذ وشرط الصحة وشرط اللزوم. أما شرائط الانعقاد فأنواع منها في العاقد وهو أن يكون عاقلا مميزا كذا في الكافي والنهاية فيصح بيع الصبي والمعتوه اللذين يعقلان البيع وأثره، كذا في فتح القدير وأن يكون متعددا فلا يصلح الواحد عاقدا من الجانبين كذا في البدائع..."

(کتاب البیوع ، جلد : 3 ، صفحه : 2 ، طبع : دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601101645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں