اگر کوئی مسلمان آدمی خودکشی کرتا ہے تو کیا وہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا یا جنت میں جائے گا؟
ہر انسان کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس امانت ہوتی ہے جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا،اس وجہ سے خودکشی کرنا (یعنی اپنے آپ کو خود ہی مارنا) اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے اسلام میں حرام ہے اور یہ ایک گناہ کبیرہ (بڑا گناہ) ہے، تاہم اگر کوئی شخص خودکشی کو حلال اور جائز سمجھ کر نہ کرے، بلکہ مصائب اور پریشانیوں کی وجہ خودکشی کرلے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اور جس طرح دوسرے گناہ گار مسلمان اپنی سزا مکمل کرکے اللہ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے جنت میں جائیں گے، اسی طرح خودکشی کرنے والے کا بھی یہی حکم ہوگا۔
خودکشی کرنے والے کی سزا کے بارے میں مذکور ہےكہ ایسے شخص کو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا، جیسے کہ حدیث شریف میں خود کشی کی مختلف صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے مذکور ہے:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمايا: جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔"
حدیث کاحاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا آخرت میں اس کو ہمیشہ کے لیے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔ یہاں " ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے ، یا پھر " ہمیشہ ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔
لہذا اگر کوئی شخص خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتاہے تب تو ہمیشہ اس کی یہ سزا ہوگی، اور اگر کوئی شخص مذکورہ گناہ کو مباح سمجھ کر نہیں کرتا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے جب چاہے معاف کرکے جنت میں داخل کردے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تردى من جبل فقتل نفسه ; فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه؛ فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا» ". متفق عليه.
قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل."
(كتاب القصاص،رقم الحديث:3453، ج:6، ص:2262، ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144210200613
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن