بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کمیشن لینا جائز ہے؟


سوال

کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

   آپ کا  سوال مبہم ہے ،مکمل صورت لکھ کر دوبارہ سوال ارسال  فرمائیں ،تا ہم آپ کے سوال کا اصولی جواب یہ ہے کہ   مارکیٹ میں جو افرادمختلف افراد  بطور بروکر یا کمیشن ایجنٹ کےیا کمپنیوں کا مال کسی دوسرے شخص  کو دلواتے یا خرید کر دیتے ہیں  ، اور اس پر  مقررہ یا  معروف کمیشن لیتے ہیں  ،تو    یہ  کمیشن لینا شرعاً   جائز ہے ،البتہ اگر  کوئی شخص کسی   کمپنی  کا ملازم ہوں  اور کمپنی کے  لیے  مال بیچنے یا  خرید نے   پر مامور ہوں  ،اور کمپنی سے اس کام کی تنخواہ   بھی لیتا  ہو ،تو اس کے لیے    خفیہ  کمیشن لینا  جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: ‌وفي ‌الدلال ‌والسمسار ‌يجب ‌أجر ‌المثل، وما تواضعوا عليه ۔۔. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام"

(کتاب الإ جارۃ، باب إجارۃ الفاسدۃ، مطلب في أجرۃ الدلال ، ج:6، ص:63، ط :سعید)

وفیہ ایضاً:

"‌وأما ‌أجرة ‌السمسار ‌والدلال ‌فقال ‌الشارح ‌الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم"

(کتاب البیوع ، باب المرابحة والتولیة، ج:5، ص:136، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں