بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں؟ وعاشروھن بالمعروف میں امر استحبابی ہے وجوبی نہیں


سوال

بعض لوگوں کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہماری بیویاں ہمارے اللہ کی پسند ہیں، ہمارے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، اس لیے وہ جیسی بھی ہوں ان سے محبت کرنی چاہیے اور یہ کہ اللہ نے بیویوں کے بارے میں بندوں سے سفارش کی ہے اور" وعاشروھن بالمعروف" کی آیت پیش کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری بیویاں اللہ کی پسند ہوتی ہیں؟ اگر اللہ کی پسند ہوتی ہیں یا رشتے آسمان پر بنتے ہیں تو جو مسلم لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے نکاح کرتے ہیں ،ان کے بارےمیں کیا کہیں گے ؟اور کیا مذکورہ بالا آیت میں امر سفارش کےلیے ہے یا امر واجبی ہے ؟

جواب

جو حضرات یہ کہتے ہیں   کہ ہماری بیویاں ہمارے لیے اللہ تعالی کی پسند ہیں اور ہمارے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں،ان کی یہ بات اس معنی کے لحاظ سےکہ یہ  سب رشتے اور جوڑے تقدیرالہی کے مطابق ہوتے اور بنتے ہیں اورپہلےسے  اللہ تعالی کے علم میں  موجود ہےکہ فلاں مرد کا رشتہ فلاں عورت سے ہوگی ،بالکل درست ہے،تاہم اس سے کسی کایہ سمجھ لینا کہ  انسان بالکل بے بس ومجبور ہے،اسے اچھے اور نیک رشتہ کی تلاش ہی نہیں کرنی چاہیے؛ اس لیے کہ  ویسے بھی پہلے سے اللہ تعالی نے اس کے لیے کوئی خاتون پسند کی ہوگی،یہ بات قطعاً درست نہیں ہے؛اس لیے کہ اللہ تعالی نے انسان کو کسب کا اختیار دے کر اس کو احکامات کا مکلف بنادیا ہے۔

لہذا جو مسلمان لڑکے غیر مسلم لڑکیوں ( مشرکہ ،مجوسیہ،دہریہ )سے نکاح کرتے ہیں،اس سےیہ سمجھ لینا  کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے یہ رشتہ پہلے سےپسند فرمایا ہیں؛اس لیے اس مسلمان لڑکےنے فلاں غیر مسلم لڑکی سے نکاح کرلیا،درست نہیں ہے،بلکہ یہ تو اس مسلمان  کوجو اختیار  اللہ تعالی نے دےدیا تھا اس اختیار کو برا  اور غلط استعمال کرنا کہیں گے،نہ کہ اللہ تعالی کی پسند ومرضی ،جس کودوسرے الفاظ میں کسب قبیح  بھی کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالی انسان کےکسب قبیح سے راضی نہیں ہوتے؛کیوں کہ مرضی ورضا نام ہے  حسن وقبح دوامروں میں سے قبح کو ترک کرکے حسن کو اختیا ر کرلینے کا،معلوم ہوا کہ کسب قبیح سے اللہ راضی نہیں ہوتے ،بلکہ خفا ہوتے ہیں۔

مختصراً یہ کہ جو مسلمان لڑکے غیر مسلم لڑکیوں (اہل کتاب خواتین کے علاوہ )سے نکاح کرتے ہیں ،ان کے اس عمل کے تعلق کو ان کے کسب سے جوڑا جائے گا،نہ کہ  تقدیر ومقدرات سے۔

باقی  جو آیت  مبارکہ   آپ نے پیش فرمائی ہے، اس  میں  امر استحبابی  ہے، امروجوبی نہیں ۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"ثم المراد بجميع ما ذكر من الرزق والأجل والشقاء والسعادة والعقل والذكورة والأنوثة يظهر ذلك للملك فيؤمر بإنفاذه وكتابته وإلا فقضاء الله تعالى وعلمه وإرادته سابقة على ذلك."

(باب مخلقة وغیرمخلقة، 294/3، ط: دار الفكر )

شرح العقائد  النسفیہ میں ہے:

" وللعباد افعال اختیاریة یثابون بھا ان کانت طاعة ویعاقبون علیھا ان کا نت معصیة لا کمازعمت الجبریة انه لافعل للعبد اصلا وان حرکاته بمنزلة حرکات الجمادات لاقدرۃ علیھا ولا قصد ولا اختیار ھذا باطل."

( مسألة الجبر والإختیار،209، ط: مکتبة البشری)

وفیہ ایضاً:

"ونحن نمنع ذلك، بل القبیح كسب القبیح والاتصاف به .

والحسن منها أي من أفعال العباد......برضاء الله تعالى ای بإرادته من غير اعتراض، والقبيح منها، وهو ما يكون متعلق الذم في العاجل والعقاب في الآجل، ليس برضاه....... والرضا والمحبة والأمر لا يتعلق إلا بالحسن دون القبیح."

( مسألة الجبر والإختیار، 219،218،206، ط: مکتبه بشری )

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {‌وعاشروهن ‌بالمعروف} [النساء: 19]

قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: صلى الله عليه وسلم : خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي."

(کتاب النکاح، فصل المعاشرۃ بالمعروف، 334/2، ط: دار الكتب العلمية)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’ ہم جو ذریعہ معاش اختیار کرتے ہیں یا اچھے برے کام کرتے ہیں یا امیر و غریب ہوتے ہیں ،یہ سب کچھ اللہ کے علم و اندازے کے موافق ہوتا ہے ، باوجود اس کے ہم پتھروں کے مثل مجبور اور بے بس نہیں ہیں اور اپنے اچھے برے کاموں کے اچھے برے نتائج کے مستحق اور ذمہ دار اپنے اختیاری اعمال کی بناء پر ہوتے ہیں۔‘‘

( کتاب العقائد، 146/1، ط: دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’انسان سے برے کام کیا اللہ تعالیٰ کراتا ہے؟

سوال : انسان جو اچھے برے کام انجام دیتا ہے، کیا وہ خود کرتا ہے یا اللہ کراتا ہے؟

الجواب حامداً و مصلياً : اللہ تعالیٰ برے کام کرنے کے لئے کسی کو حکم نہیں کرتا ، بلکہ وہ تو برے کام سے منع کرتا ہے، انسان نفس و شیطان کے بہکانے سے خود برے کام کرتا ہے اور سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ فقط واللہ اعلم ۔‘‘

( کتاب الایمان والعقائد ،221/1، ط: جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں