بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا جھوٹی قسم کھانا موجب عذاب وعتاب ہے؟


سوال

ہمارے ہاں لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر عام لوگوں کے درمیان یا کسی جرگہ میں قرآن کی جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں یا قرآن کی قسم اٹھا کر اس کے برخلاف کرتے ہیں تو اس پر کوئی عتاب(گناہ) وعذاب نہیں ہوتا، چاہیے کتنی مرتبہ ہی یہ عمل دہرالیں، عذاب وعتاب(گناہ) اس وقت ہو گا جب عدالت یا قاضی وقت کے روبرو قرآن کی قسم اٹھائیں، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں یہ بات صحیح نہیں کہ عام لوگوں اور جرگہ میں جھوٹی قسم کھانے سے عتاب(گناہ) وعذاب نہیں  ہوتا بلکہ صرف قاضی کے روبرو یا عدالت میں جھوٹی قسم کھانے سے عتاب (گناہ) وعذاب ہوتا ہے، بلکہ جس طرح  عدالت یا قاضی کے روبرو جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے اسی طرح عام لوگوں اور مجمع میں بھی جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے، لہذا ایسا کرنے والے کو سچے دل سے توبہ واستغفار کرنی چاہیے، اور آئندہ اس طرح کی جھوٹی قسموں سے بچنا چاہیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، ‌واليمين ‌الغموس)."

(كتاب الأيمان والنذور، باب: اليمين الغموس، ج:6، ص:2457، ط: دار ابن كثير)

فتاوی شامی میں ہے:

"وھي أي: الیمین باللہ تعالی … غموس تغمسه فی الإثم ثم فی النار، وھي کبیرة مطلقاً … إن حلف علی کاذب عمداً … کو اللہ ما فعلت کذا عالماً بفعله أو … کواللہ ما له علي ألف عالماً بخلافه وواللہ إنه بکر عالماً بأنه غیرہ … ویأثم بھا فتلزمه التوبة."

(کتاب الأیمان،ج:3، ص:705، ط:سعید)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينا."

(كتاب الايمان، ج:3، ص:712، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605100960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں