بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جس شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ عید سے پہلے بال کٹوا سکتا ہے؟


سوال

کیا قربانی کے جانور کے حصے دار 10ذی الحجہ سے پہلے بال کٹوا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  جس شخص کا قربانی کرنے کارادہ ہو تو  قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے ،چناں چہ حدیث میں  ہے کہ :

"أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره وأظفاره."

ترجمہ:آپﷺ نے فرمایا:" جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو،اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں سے رک جائے۔"

(كتاب الأضاحي،باب نهى من دخل عليه عشر ذى الحجة وهومريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئ،ج6،ص83،رقم:1997،ط:دار الطباعة العامرة)

لہذا بلا  عذر  محض عید  پر سنورنے کے لیے اس حدیث کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے،البتہ  پھر بھی اگر کوئی شخص ناخن یا بال کاٹ لے  تو گناہ گار نہیں ہوگا۔

شرح النووی علی صحیح لمسلم میں ہے:

"واختلف العلماء فيمن دخلت عليه عشر ذي الحجة وأراد أن يضحي فقال سعيد بن المسيب وربيعة وأحمد وإسحاق وداود وبعض أصحاب الشافعى أنه يحرم عليه أخذ شئ من شعره وأظفاره حتى يضحي في وقت الأضحية وقال الشافعي وأصحابه هو مكروه كراهة تنزيه وليس بحرام وقال أبو حنيفة لايكره."

(كتاب الأضاحي،باب نهى من ذخل عليه عشر ذى الحجة وهومريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئ،ج13،ص138،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں