بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جنت میں عورت کو دوسرا شوہر اختیار کرنے کی اجازت ہوگی ؟آیات مبارکہ کے درمیان رفع تعارض


سوال

 میت کے لیے حدیث نبوی سے مروی دعائے ماثورہ کے الفاظ"وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه"میں "زوجا خیراً من زوجه" سےکیا  یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ جو بیوی اپنے شوہر کی زیادتیوں کی وجہ سے دنیا میں تنگ ہو، اور فی الحال اسے پسند نہ کرتی ہو،اور چاروناچار حالات یا بچوں کی خاطر دنیا میں ساتھ رہ رہی ہو ،تو جنت میں اُسے مذکورہ شوہر کے بدلے دوسرا شوہر اختیار کرنے کی اجازت ہوگی ؟

نیز اس سلسلہ میں "ولکم فیها ما تشتهی انفسکم ...الخ" اور "ادخلوا الجنة انتم وازواجکم" مذکورہ دو آیات قرآنی کے درمیان ظاہری تعارض کو تحقیق کے ساتھ رفع فرمادیں ۔

جواب

نیک عورت اگر شادی شدہ ہے تو  جنت میں  اپنے  شوہر  کے ساتھ رہے گی بشرط یہ کہ اس کا شوہر بھی جنتی ہو ،اوروہ عورت شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہوگی، اوراللہ تعالیٰ اس عورت کو ان سب سے حسین وجمیل بنائیں گے اور  وہ میاں بیوی آپس میں ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہوں گے،ایسی صورت میں مذکورہ دعائے ماثورہ "زوجا خیراً من زوجه"سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کےشوہر کو اوصاف کے اعتبار سے بدل دیں گے ،اور جنتی مرد کی تمام صفات عطافرمادیں گے ،تو گویا دنیاوی صفات کو جنتی صفات سے بدلنا مراد ہے۔اور مذکورہ دعائے ماثورہ "زوجا خیراً من زوجه" سے عورت کو دنیاوی شوہر کے بدلہ  دوسرا شوہر اختیار کرنے کی اجازت مراد لینا درست نہیں ہے۔

البتہ  اگر دنیا میں عورت کے متعدد شوہر ہوں یعنی عورت  نے اپنے شوہر کے انتقال  یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کرلی ہو  ،یعنی اس عورت نے دو یا اس سے زیادہ شادیاں کی ہوں تو   وہ جنت میں اپنے کس شوہر کے ساتھ رہے گی ؟  اس بارے میں  مختلف اقوال ہیں :

  1)   اس عورت کو اختیار دیا جائے گا  کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کرلے۔

2)   وہ عورت آخری شوہر  کے ساتھ رہے گی۔

3) عورت اس شوہر کے ساتھ رہے گی جس نے دنیا میں   اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہواور وہ شوہر جس نے  عورت  پر ظلم کیا ہوگا ، اس کو تنگ کیا ہوگا وہ اس عورت سے محروم رہے گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ  انہوں نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا  کہ کسی کے دو شوہر ہوں تو   وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے    فرمایا: اسے اختیار دیا جائے گا ، پس وہ اس شوہر کو اختیار کرے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو، اور وہی اس کا جنت میں شوہر ہوگا، اے ام سلمہ! اچھے اخلاق والے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے گئے۔

4) بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے کہ  اگر سب شوہر حسن خلق میں برابر ہوں تو  آخری شوہر کو ملے گی ورنہ اسے اختیار دیا جائے گا۔

اور اگر عورت  کنواری ہو یعنی اس کا شادی سے پہلے ہی انتقال ہوگیا ہو ، یا شادی شدہ تو  ہو ،لیکن اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو  جنت میں جس مرد کو بھی وہ پسند کرے گی، اس کے ساتھ اس کا نکاح ہوجائے گا، اور اگر موجودہ لوگوں میں کسی کو بھی پسند نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مرد جنت میں پیدا فرمائیں گے  جو اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔

باقی یہ خواہش کہ ایک عورت بیک وقت کئی مردوں کی بیوی ہو خلافِ فطرت بھی ہی اور جنت میں یہ خواہش پیدا بھی نہیں ہوگی۔

نیز  یہ بات سمجھ لیں کہ جنت کے احوال وکیفیات کو دنیا پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، قرآن کریم میں سورہ اعراف کی آیت:43"ونزعنا ما فی صدورھم من غل تجري من تحتھم الانھار"(ترجمہ:اور جو کچھ ان کے دلوں میں غبار تھاہم اس کو دور کردیں گے،ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔بیان القرآن)  سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جنت کے سینے کینے سے خالی ہوں گے، اس لیے دنیا کی باہمی تلخیاں جنت پہنچنے کے بعد نہ رہیں گی،اور آیت مبارکہ "ادخلوا الجنة انتم وازواجکم"  میں ازواج سے مراد جنتی ازواج ہیں ،جن کی تفصیل مندرجہ بالا ہے،لہذا عورتوں کے لیے اگر دنیا میں ان کے شوہر ناپسندیدہ  ہوں،تب بھی جنت میں داخل ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی کی آپس کی کدورتیں ختم ہوجائیں گی اوردونوں ایک دوسرے کو چاہنے والے ہوجائیں گے ،لہذا دوسری آیت مبارکہ "ولکم فیها ما تشتهی انفسکم سے اس کا کوئی تعارض نہیں ہوا۔

حاشیۃ السیوطی علی سنن النسائی میں ہے:

"وزوجا خيرا من زوجه قال طائفة من الفقهاء هذا خاص بالرجل ولا يقال في الصلاة على المرأة أبدلها زوجا خيرا من زوجها لجواز أن تكون لزوجها في الجنة فإن المرأة لا يمكن الاشتراك فيها والرجل يقبل ذلك."

(كتاب قيام الليل وتطوع النهار،ج:4،ص:73،ط:مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"خيرا من أهله، وزوجا خيرا من زوجه)أي: من الحور العين، ونساء الدنيا أيضا، فلا يشكل أن نساء الدنيا يكن في الجنة أفضل من الحور ; لصلاتهن وصيامهن كما ورد في الحديث. وأما قول ابن حجر: وخير ليست على بابها من كونها أفعل تفضيل إذ لا خيرية في الدنيا بالنسبة للآخرة، فليس على بابه إذ الكلام في النسبة الحقيقية لا في النسبة الإضافية ; قال تعالى: {والآخرة خير وأبقى} ، وقال عز وجل: {والآخرة خير لمن اتقى}"

(کتاب الجنائز،المشي بالجنازة، والصلاة عليها،ج:3،ص:198،ط:دار الفكر، بيروت)

تحفۃ الاحوذی میں ہے:

"والظاهر أنه يدعو بهذه الألفاظ الواردة في هذه الأحاديث سواء كان الميت ذكرا أو أنثى ولا يحول الضمائر المذكرة إلى صيغة التأنيث إذا كانت الميت أنثى لأن مرجعها الميت وهو يقال على الذكر والأنثى انتهى."

(باب ما يقول في الصلاة على الميت،ج:4،ص:93،ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"والمراد بالإبدال في الأهل والزوجة إبدال الأوصاف لا الذوات {ألحقنا بهم ذريتهم}ولخبر الطبراني وغيره «إن نساء الجنة من نساء الدنيا أفضل من الحور العين» " وفيمن لا زوجة له على تقديرها له أن لو كانت ولأنه صح الخبر بأن المرأة لآخر أزواجها: أي إذا مات وهي في عصمته وفي حديث رواه جمع لكنه ضعيف «المرأة منا ربما يكون لها زوجان في الدنيا فتموت ويموتان ويدخلان الجنة لأيهما هي؟ قال: لأحسنهما خلقا كان عندها في الدنيا» وتمامه في تحفة ابن حجر."

(کتاب الصلاۃ،‌‌باب صلاة الجنازة،ج:2،ص:213،ط:سعید)

المعجم الأوسط للطبرانی  میں ہے:

'' قال: خطب معاوية بن أبي سفيان أم الدرداء بعد وفاة أبي الدرداء، فقالت أم الدرداء: إني سمعت أبا الدرداء يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أيما امرأة توفي عنها زوجها، فتزوجت بعده فهي لآخر أزواجها»۔ وما كنت لأختارك على أبي الدرداء''۔

 (من اسمہ بکر،ج:3،ص:275،رقم:3130،  ط:دارالحرمین، القاہرہ)

 المعجم الكبير للطبراني میں ہے:

''عن أم سلمة، قالت: قلت: يا رسول الله أخبرني عن قول الله: ﴿ حُوْرٌعِيْنٌ ﴾ [الواقعة: 22] ، قال: " حور: بيض، عين: ضخام العيون شقر الجرداء بمنزلة جناح النسور "، قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ [الطور: 24] ، قال: «صفاؤهم صفاء الدر في الأصداف التي لم تمسه الأيدي». قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ فِيْهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ ﴾ [الرحمن: 70] ، قال: «خيرات الأخلاق، حسان الوجوه» . قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ [الصافات: 49] ، قال: « رقتهن كرقة الجلد الذي رأيت في داخل البيضة مما يلي القشر وهو العرفي» . قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ عُرُباً اَتْرَاباً ﴾ [الواقعة: 37] ، قال: «هن اللواتي قبضن في دار الدنيا عجائز رمضاء شمطاء خلقهن الله بعد الكبر، فجعلهن عذارى عرباً متعشقات محببات، أتراباً على ميلاد واحد» . قلت: يا رسول الله أنساء الدنيا أفضل أم الحور العين؟ قال: «بل نساء الدنيا أفضل من الحور العين، كفضل الظهارة على البطانة» . قلت: يا رسول الله وبما ذاك؟، قال: " بصلاتهن وصيامهن وعبادتهن الله، ألبس الله وجوههن النور، وأجسادهن الحرير، بيض الألوان خضر الثياب صفراء الحلي، مجامرهن الدر، وأمشاطهن الذهب، يقلن: ألا نحن الخالدات فلا نموت أبداً، ألا ونحن الناعمات فلا نبؤس أبداً، ألا ونحن المقيمات فلا نظعن أبداً، ألاونحن الراضيات فلا نسخط أبداً، طوبى لمن كنا له وكان لنا "، قلت: يا رسول الله المرأة منا تتزوج الزوجين والثلاثة والأربعة ثم تموت فتدخل الجنة ويدخلون معها، من يكون زوجها؟ قال: " يا أم سلمة إنها تخير فتختار أحسنهم خلقاً، فتقول: أي رب إن هذا كان أحسنهم معي خلقاً في دار الدنيا فزوجنيه، يا أم سلمة ذهب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرة'' ۔

( ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم،ام سلمة، ج:23،ص:367،ط:مکتبه ابن تیمیه، القاہرہ)

معارف القران میں ہے:

"و نزعنا ما في صدورهم من غل تجري من تحتهم الانهر یعنی جنتی لوگوں کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی طرف سے کوئی رنجش یا کدورت ہوگی تو ہم اس کو ان کے دلوں سے نکال دیں گے، یہ لوگ ایک دوسرے سے بالکل خوش ،بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے اور بسیں گے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ مومنین جب پل صراط سے گزر کر جہنم سے نجات حاصل کرلیں گے تو ان کو جنت و دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے آپس میں اگر کسی سے کسی کو رنجش تھی یا کسی پر کسی کا حق تھا تو یہاں پہنچ کر ایک دوسرے سے انتقام لے کر معاملات صاف کرلیں گے اور اس طرح حسد ، بغض، کینہ وغیرہ سے پاک صاف ہوکر جنت میں داخل ہوں گے۔"

(سورۃ الاعراف، آیت نمبر :43، ج :3، ص:561،ط: دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:"جو مسلمان کلمہ گو اپنے بد عمل کے تحت دوزخ میں گیا اور اس کی عورت نیک عمل کے تحت جنت میں گئی ، اس کا شوہر جنت میں کیوں کر اور کیسے ملے گا؟

جواب:اگر سزا بھگت کر آجائے تو کیا اشکال ہے ، کیوں کہ کوئی مسلمان ہمیشہ کے لیے دوزخ میں نہیں رہے گا۔"

(ما یتعلق بالجنۃ و نعیمہا جلد ۱ ص:۶۹۴ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں