بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جہاز کی سیٹ پر سونا ناقض وضو ہے ؟


سوال

اگر کوئی شخص ہوائی جہاز کی کرسی پر سو جائے تو کیا اس سے وضو ٹوٹتا ہے ؟ مقصود  یہ ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے ،نیند میں اصل قوتِ ماسکہ   کا زائل ہونا ناقض ہے جب کہ ہوائی جہاز کی سیٹ میں امساک بدرجہ اتم رہتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کرسی پر یا کسی بھی جگہ  کسی  چیز کا ایسا سہارا لے کر سونا  کہ اگر اس چیز کو ہٹا دیا جائے، تو سونے ولا گر جائے، شرعاً ناقضِ وضو ہے، لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں جہاز کی سیٹ پر ہاتھ یا کمر کو سیٹ سے سہارا دے کر سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا، جہاں تک جہاز کی سیٹ پر امساک بدرجہ اتم باقی رہنے کا شبہ ہے، تو سیٹ بیلٹ/ کمر کے ٹیک کی وجہ سے سونے والا دائیں  بائیں نہیں گرتا، جس سے امساک کے باقی رہنے کا شبہ ہوتا ہے، لیکن اگر یہ سہارا نہ ہو، تو ٹیک لگا کر سونا امساک کے زوال کا سبب ہے، کیوں کہ ان سہاروں کو زائل کرنے سے لازماً سونے والا گرے گا،ہاں اگر کوئی شخص سیٹ پر آگے ہو کر بغیر  سہارا لیے سو جائے اور سونےکے دوران جم کر بیٹھا رہے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا لیکن  کرسی پر سوتے وقت عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے۔

فتح القدیر شرح  ہدایہ  میں ہے :

"والنوم مضطجعا أو متكئا أو مستندا إلى شيء لو أزيل عنه لسقط) لأن الاضطجاع سبب لاسترخاء المفاصل فلا يعرى عن خروج شيء عادة، والثابت عادة كالمتيقن به والاتكاء يزيل مسكة اليقظة لزوال المقعد عن الأرض، ويبلغ الاسترخاء غايته بهذا النوع من الاستناد، غير أن السند يمنعه من السقوط."

"(قوله ويبلغ الاسترخاء إلخ) ظاهر المذهب عن أبي حنيفة عدم النقض بهذا الاستناد ما دامت المقعدة مستمسكة للأمن من الخروج، والانتقاض مختار الطحاوي اختاره المصنف والقدوري؛ لأن مناط النقض الحدث لا عين النوم، فلما خفي بالنوم أدير الحكم على ما ينتهض مظنة له، ولذا لم ينقض نوم القائم والراكع والساجد، ونقض في المضطجع؛ لأن المظنة منه ما يتحقق معه الاسترخاء على الكمال وهو في المضطجع لا فيها، وقد وجد في هذا النوع من الاستناد إذ لا يمسكه إلا السند، وتمكن المقعدة مع غاية الاسترخاء لا يمنع الخروج، إذ قد يكون الدافع قويا خصوصا في زماننا لكثرة الأكل فلا يمنعه إلا مسكة اليقظة، ولو كان محتبيا ورأسه على ركبتيه لا ينقض."

(‌‌كتاب الطهارة،سنن الوضوء،ج1،ص141،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں