کیا پاخانہ کے سوراخ سے پانی اندر چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
واضح رہے استنجاء میں مبالغہ(پچھلی شرم گاہ کے اندر تک پانی پہنچانا،جو کہ ممنوع ہے) کرتے ہوئے اگر پانی موضع حقنہ (حقنہ ایک علاج ہے، جس میں کسی آلہ کے ذریعے پیچھے کی شرم گاہ سے دوا ڈالی جاتی ہے، تو جہاں تک اس آلہ کا سِرا جاتا ہے، جہاں سے دوا معدہ کی طرف پہنچتی ہے اس جگہ کو موضع حقنہ کہا جاتا ہے) تک روزہ کی حالت میں استنجاء کرنے میں مبالغہ کرتے ہوئے پانی پہنچ جائے، تو روزہ ٹوٹ جائے گا، صرف قضاء لازم ہو گی ،کفارہ نہیں ۔
لیکن اگر مذکورہ(موضع حقنہ)) جگہ تک پانی نہیں پہنچا تو ،روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،روزہ صحیح رہے گا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"والصائم إذا استقصى في الاستنجاء حتى بلغ الماء مبلغ الحقنة يفسد صومه هكذا في البحر الرائق."
(کتاب الصوم،النوع الاول ما یوجب القضاءدون الکفارۃ،ج:1،ص:204،ط:دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"ولو بالغ في الاستنجاء حتى بلغ موضع الحقنة فسد وهذا قلما يكون ولو كان فيورث داء عظيما.قوله: حتى بلغ موضع الحقنة) هي دواء يجعل في خريطة من أدم يقال لها المحقنة مغرب ثم في بعض النسخ المحقنة بالميم وهي أولى قال في الفتح: والحد الذي يتعلق بالوصول إليه الفساد قدر المحقنة اهـ. أي قدر ما يصل إليه رأس المحقنة التي هي آلة الاحتقان وعلى الأول فالمراد الموضع الذي ينصب منه الدواء إلى الأمعاء."
(كتاب الصوم، ج:2، ص:397، ط:سعيد)
لسان العرب میں ہے:
"والحقنة: دواء يحقن به المريض المحتقن، واحتقن المريض بالحقنة؛ ومنه الحديث: أنه كره الحقنة؛ هي أن يعطى المريض الدواء من أسفله وهي معروفة عند الأطباء."
(لسان العرب، ج:13، ص:126، ط:دار صادر)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وما وصل إلى الجوف أو إلى الدماغ عن المخارق الأصلية كالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلى الجوف أو إلى الدماغ فسد صومه، أما إذا وصل إلى الجوف فلا شك فيه لوجود الأكل من حيث الصورة."
(کتاب الصوم ،باب فی أرکان الصوم،ج:2،ص:93،ط:دارالکتب العلمة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409101188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن