بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسح علی الجوربین پر اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا؟


سوال

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسح علی الجوربین پر اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا؟

جواب

واضح رہے کہ جراب کی اقسام میں سے مجلد اور منعل پر بالاتفاق مسح کرنا جائز ہے،"مجلد" یعنی وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو ، اور "منعل" یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو،ان کے علاوہ باریک قسم کی جراب پر بالاتفاق مسح کرنا جائز نہیں ہے۔

باقی جراب کی جس قسم پر مسح کرنے میں حضرت امام صاحب رحمہ اللہ اور حضراتِ صاحبین رحمھمااللہ کے درمیان اختلاف تھا وہ "ثخینین"ہے، یہ جراب کی وہ قسم ہے جو اپنی خصوصیات اور اوصاف میں چمڑے کے ہم پایہ ہے، یہ ایسی گاڑھی اور موٹی جراب ہے جس میں پانی نہیں چھنتا، اتنی مضبوط ہے کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں  تین میل پیدل چلنا ممکن ہے اور یہ کسی چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے  پنڈلی پر خود قائم رہتی ہے اور یہ قائم رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ حضراتِ صاحبین رحمھمااللہ جراب کی اس قسم پر بھی مسح کے جواز کے قائل تھے، جب کہ حضرت امام صاحب رحمہ اللہ پہلے تو اس پر مسح کے عدمِ جواز کے قائل تھے، البتہ بعد میں امام صاحب رحمہ اللہ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا اور اس پر مسح کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔

البحر الرائق میں ہے:

"ثم المسح على الجورب إذا كان منعلا جائز اتفاقا، وإذا كان لم يكن منعلا، وكان رقيقا غير جائز اتفاقا، وإن كان ثخينا فهو غير جائز عند أبي حنيفة وقالا يجوز لما رواه الترمذي عن المغيرة بن شعبة قال «توضأ النبي - صلى الله عليه وسلم - ومسح على الجوربين» وقال حديث حسن صحيح ورواه ابن حبان في صحيحه أيضا؛ ولأنه يمكن المشي فيه إذا كان ثخينا وله أنه ليس في معنى الخف؛ لأنه لا يمكن مواظبة المشي فيه إلا إذا كان منعلا، وهو محمل الحديث، وعنه أنه رجع إلى قولهما وعليه الفتوى كذا في الهداية وأكثر الكتب؛ لأنه في معنى الخف فالتأويل المذكور للحديث قصر لدلالته عن مقتضاه بغير سبب فلا يسمع على أن الظاهر أنه لو كان المراد به ذلك لنص عليه الراوي."

(كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين، المسح على الجورب، ج:١، ص:١٩٢، ط:دارالكتاب الإسلامي)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(والجورب المجلد والمنعل والثخين) أي يجوز‌‌ المسح على الجورب إذا كان منعلا أو مجلدا أو ثخينا، أما إذا كان مجلدا أو منعلا فإنه يمكن مواظبة المشي عليه والرخصة لأجله فصار كالخف والمجلد هو الذي وضع الجلد على أعلاه وأسفله والمنعل هو الذي وضع الجلد على أسفله كالنعل للقدم وقيل يكون إلى الكعب، ‌وأما ‌الثخين فالمذكور قولهما وحده أن يستمسك على الساق من غير ربط وأن لا يرى ما تحته وقال أبو حنيفة لا يجوز المسح عليه؛ لأن المأمور به غسل الرجلين وعدل عنه في الخف لما روينا وليس الجورب في معناه؛ لأنه لا يمكن مواظبة المشي عليه ولهما ما روي «أنه - صلى الله عليه وسلم - مسح على الجوربين» وهو مذهب علي بن أبي طالب وابن مسعود - رضي الله عنهما - ويروى رجوع أبي حنيفة إلى قولهما قبل موته بثلاثة أيام وقيل بسبعة أيام وعليه الفتوى، وعنه أنه مسح على جوربيه في مرضه، ثم قال لعواده: فعلت ما كنت أنهى الناس عنه فاستدلوا به على رجوعه."

(كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين، المسح على الجورب، ج:١، ص:٥٢، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں