بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا علاج کی نیت سے کسی نا محرم کے جسم کے مخصوص حصوں کو چھونا جائز ہے؟


سوال

کیا علاج کی نیت سے کسی نا محرم کے جسم کے مخصوص حصوں کو چھونا جائز ہے،  اگر شہوت بالکل نہ ہو ، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

نامحرم کے علاج سے متعلق شریعت کا یہ حکم ہے کہ   اگر خواتین کے علاج یا آپریشن کے لیے خاتون ڈاکٹر میسر ہو تو اس صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج معا لجہ یا آپریشن کروانے کے لیے ستر کھولنے یا چھونے  کی  شرعاً اجازت نہیں ہے، بلکہ خاتون ڈاکٹر کے سامنے بھی  بقدرِ ضرورت ستر کھولنے اور اسے چھونے کی ہی  اجازت ہوگی۔

البتہ اگر کسی جگہ خواتین ڈاکٹر موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں، لیکن وہ  ماہر نہ ہوں  اور مرد ڈاکٹر سے علاج،  معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ایسی صورت میں  ضرورت کے بقدر جسم کے قابل علاج  مخصوص حصے دیکھنا، اور اگرچھونا نا گزیر ہو تو جسم کے وہ اعضاء چھونے کی بھی   گنجائش ہے۔

"الفتاوي الهندية" میں ہے :

"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ويجوز للرجل النظر إلى فرج الرجل للحقنة كذا ذكر شمس الأئمة السرخسي، كذا في الظهيرية ۔۔۔۔۔ امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر الیه ومالا یحل له،ج:5،ص:327،دارالفکر)

"الدر المختار" میں ہے :

"(ينظر) الطبيب (إلى موضع مرضها بقدر الضرورة) إذ الضرورات تتقدر بقدرها.

وفي الرد:وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل."

(کتاب الحظر والاباحة،فصل فی النظر والمس،ج:6،ص:67،سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں