بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اجارہ جائز ہے؟


سوال

کیا اجارہ جائز ہے؟

جواب

جی ہاں!  قرآن وحدیث اور اجماع امت سے اجارہ کا جائز ہونا ثابت ہے، یہ آپ کے سوال کا اصولی جواب ہے، تاہم اگر آپ کسی خاص پس منظر میں کسی سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اس کی پوری صورت لکھ کر ارسال کیجیے۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

" وقد جاء في الكتاب العزيز { إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتي هاتين على أن تأجرني ثماني حجج } على لسان شعيب عليه السلام وشرع من قبلنا شرع لنا ما لم يرد ما ينسخه ولا سيما إذا ذكر الشرع من غير إنكار وقد جاء في الكتاب العزيز أيضا { فآتوهن أجورهن } وقوله تعالى { لو شئت لاتخذت عليه أجرا } فهذه الآيات الكريمة تدل على أن الإجارة مشروعة . وأما السنة فقد ورد في الحديث الشريف { أعط الأجير أجره قبل أن يجف عرقه } { ومن استأجر أجيرا فليعطه أجره} فالأمر بإعطاء الأجرة دليل على صحة الإجارة . وأما إجماع الأمة فقد انعقد في كل عصر على صحة الإجارة".

(درر الحكام شرح مجلة الأحكام: الكتاب الثاني الإجارة 1/ 439، 440، ط. دار الجيل، الطبعة الأولى:1411هـ = 1991م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں