کیا عید کے دن سر منڈ وانے سے قربانی کا ثواب ملتا ہے؟
ایک حدیث شریف میں ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ: مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے لیے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا، کہ اگر میرے پاس دودھ کے لیے عاریتًا دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانی کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! لیکن (قربانی کے دن) اپنےسر کے بال اور ناخن کاٹ لو، اپنی مونچھ تراش لو اور زیر ناف بال صاف کرلو، یہ اللہ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی ۔
اس کو امام احمد ، امام ابوداود، امام نسائی ، امام دارقطنی اور امام حاکم رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے اورامام حاکم اور امام ذہبی رحمہما اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
لہذا جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور عید کے دن بال کاٹ لے اور ناخن تراش لے، البتہ سر منڈوانا ضروری نہیں، تراشنا بھی کافی ہے۔ حدیث شریف کی اس بشارت پر اس کو قربانی کا ثواب ملے گا۔
لیکن یہ روایت یوں بیان کرنا کہ :عید کے دن سر منڈ وانے سے قربانی کا ثواب ملتا ہے ، درست نہیں۔اس کو تفصیل بالا کے مطابق بیان کرنا چاہیے۔
"عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لرجل: أمرت بيوم الأضحى عيدًا، جعله الله عز و جل لهذه الأمة، فقال الرجل: أرأيت إن لم أجد إلا منيحة أنثى، أفأضحي بها؟ قال: لا، ولكن تأخذ من شعرك، وتقلّم أظفارك، وتقصّ شاربك، وتحلق عانتك، فذلك تمام أضحيتك عند الله عز و جل. (واللفظ للنسائی)
أخرجه الإمام أحمد في مسنده في «مسند عبد الله بن عمرو» (11/ 139) برقم (6575)، وأبوداود في سننه في«باب ما جاء في إيجاب الأضاحي» (44) برقم (2789)، والنسائي في «باب من لم يجد الأضحية»(7/ 212) برقم (4365)، والدارقطني في«الصيد والذبائح والأطعمة وغير ذلك» (5/ 507) برقم (4749)، والحاكم في«كتاب الأضاحي» (4/248) برقم (7529)،وقال: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه. وقال الذهبي في تعليقه على المستدرك: هذا حديث صحيح.
وفي بذل المجهود شرح سنن أبي داود:
ولعل المراد من المنيحة ها هنا ما يمنح بها، وإنما منعه؛ لأنه لم يكن عنده شيء سواها ينتفع بها (ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك، وتقص شاربك، وتحلق عانتك، فتلك تمام أضحيتك عند الله) أي: أضحيتك تامة بنيتك الخالصة، ولك بذلك مثل ثواب الأضحية، وصيغة الخبر بمعنى الأمر.
(بذل المجهود شرح سنن أبي داود: كتب الضحايا (9/ 533)،ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ = 2006 م)
فقط، واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن