بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عدت گزرنے کے بعد شوہر سے عدت کا نفقہ طلب کیا جاسکتا ہے؟


سوال

میں نے 2021 میں اپنی بیوی کو طلاق دی، طلاق کے بعد عدت کا نفقہ میں اپنی مطلقہ بیوی کو نہیں دے سکا، اب دو سال بعد وہ لوگ ہم سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اس عدت کا نفقہ دیا جائے اور وہ اس مد میں ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ:

1.کیا ان کا یہ مطالبہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو میرے ذمہ کتنی رقم بنے گی، ایک معقول رقم کتنی ہوگی؟

2.میرا ایک بچہ بھی ہے اس کی عمر تقریباً تین سال ہے، وہ ماں کے پاس ہے، اس کے اخراجات کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ نیز وہ بچہ کب تک ماں کے پاس رہے گا؟ مکمل پرورش کے حق کے بارے میں رہنمائی فرمائیں!

جواب

1.واضح رہے کہ بیوی کاگزشتہ مدت کا نفقہ  صرف دو صورتوں میں لیا جاسکتا ہے:

(الف) قاضی (عدالت ) نے خرچہ طے کیا ہو۔

(ب) فریقین نے باہمی رضامندی سے کسی  مقدار کا تعین کرلیا ہو۔

لہذا اگر آپ نے واقعۃ ً اپنی بیوی کو عدت کانفقہ نہیں دیا اور  نفقہ کے تعین میں مذکورہ بالا دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت بھی پائی جاتی ہو تو مطلقہ بیوی عدت کے نفقہ کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کا ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا اور اگر ان  دو صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں پائی جاتی تو عدت  کے نفقه کی ادائیگی آپ پر لازم نہیں ہوگی۔

عدت کا نفقہ واجب ہونے کی صورت میں  اس کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بلکہ اس میں مرد اور عورت کی حالت کا اعتبار ہے۔ جتنا شوہر کی  وسعت ہو اور عورت کی ضرورت پوری ہوسکے اسی کے بقد ر نان نفقہ واجب ہے۔ لہٰذا شوہر کی آمدنی اور عورت کے ضروری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے خرچہ متعین کرلیا جائے۔

2.بچے کی عمر سات سال ہونے تک ماں کو اس کی پرورش کا حق ہے، اس کے بعد اگر باپ بچے کو اپنی پرورش میں لینا چاہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے، نیز بچے کے کمانے کے قابل ہونے تک اس کا نان نفقہ باپ کے ذمہ لازم ہے، جس کا تعین باپ کی استطاعت کو مدنظر رکھ کر باہمی رضامندی سے کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض. 

(قوله : والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب لاتصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا،3/ 594، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين ... وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، 1/ 542، ط: رشيدية)

وفيها أيضاً:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ط: 1/ 560، ط: رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503102516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں