بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ربیع الثانی 1446ھ 09 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بوقت ذبح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آنکھوں پر پٹی باندھنا(تحقیق)


سوال

کیا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھوں پر پٹی باندھی تھی اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

بعض ضعیف روایات میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کی آنکھوں پر پٹی وغیرہ باندھی گئی تھی   جیسا کہ  امام  قرطبی نے مہدوی کے حوالے سے مذکورہ قول نقل فرما یا ہے ،تاہم  صحیح قول کے مطابق مذکورہ قول خود علامہ قرطبی  اور جمہور مفسرین کے نزدیک صحیح نہیں ہے   ، بل کہ صحیح یہ ہے کہ ذبح کی تیاری کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام  کو صرف ذبح کے لیے منہ  کے بل  لٹا یا تھا اور  چہرہ دوسری طرف پھیر دیا تھا ، چھری پھیرنے کی نوبت نہیں آئی تھی، اسی طرح اس واقعے سے متعلق باپ اور بیٹے کے درمیان  جو  مختلف اقوال منقول ہیں وہ بھی صحیح اور معتمد روایات کے خلاف ہیں  اور ان کی صحت  کا صحیح علم بھی اللہ ہی کو ہے، جیسا کہ تفسیر ِ محیط میں موجود ہے۔

تفسير قرطبي میں ہے:

"وفي الخبر: إن الذبيح قال لإبراهيم عليه السلام حين أراد ذبحه: يا أبت اشدد رباطي حتى لا أضطرب، واكفف ثيابك لئلا ينتضح عليها شي من دمي فتراه أمي فتحزن، وأسرع مر السكين على حلقي ليكون الموت أهون علي واقذفني للوجه، لئلا تنظر إلى وجهي فترحمني، ولئلا أنظر إلى الشفرة فأجزع، وإذا أتيت إلى أمي فأقرئها مني السلام. فلما جر إبراهيم عليه السلام السكين ضرب الله عليه صفيحة من نحاس، فلم تعمل السكين شيئا، ثم ضرب به على جبينه وحز في قفاه فلم تعمل السكين شيئا، فذلك قو له تعالى:" وتله للجبين" كذلك قال ابن عباس: معناه كبه على وجهه فنودي" يا إبراهيم قد صدقت الرؤيا" فالتفت فإذا بكبش، ذكره المهدوي. وقد تقدمت الإشارة إلى عدم صحته، وأن المعنى لما اعتقد الوجوب وتهيأ للعمل، هذا بهيئة لا لذبح، وهذا بصورة المذبوح، أعطيا محلا للذبح فداء ولم يكن هناك مر سكين."

"وتله للجبين" قال قتادة: كبه وحول وجهه إلى القبلة،قال الجوهري:" وتله للجبين" أي صرعه، كما تقول: كبه لوجهه. الهروي: والتل الدفع والصرع، ومنه حديث أبي الدرداء رضي الله عنه:" وتركوك لمتلك" أي لمصرعك. وفي حديث آخر:" فجاء بناقة كوماء فتلها" أي أناخها. وفي الحديث:" بينا أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فتلت في يدي" قال ابن الأنباري: أي فألقيت في يدي، يقال: تللت الرجل إذا ألقيته. قال ابن الأعرابي: فصبت في يدي، والتل الصب، يقال: تل يتل إذا صب، وتل يتل بالكسر إذا سقط."

(سورة الصافات (37): الآيات 102 الى 113]،ج،15،ص،104،الي 105،ط:دار الکتب المصریة)

تفسیر بحرمحیط میں ہے:

"وذكر الزمخشري في قصة إبراهيم وابنه، وما جرى بينهما من الأقوال والأفعال فصولا، الله أعلم بصحتها، يوقف عليها في كتابه."

(سورة الصافات (37) : الآيات 99 الى 182]،ج،9،ص،118،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں