بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حب الوطن من الایمان والی حدیث صحیح ہے؟


سوال

"حُبُّ الوطن من الإيمان"،کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب

"حُبُّ الوطن من الإیمان"(یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)، اِس قسم کی بات عوام الناس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر مشہور ہے، جب کہ مذکورہ الفاظ کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں، اس لیے کہ محدثین نے اس روایت کو موضوع( یعنی من گھڑت) قرار دیا ہے۔

"موضوعاتُ الصغاني" میںہے:

"ومن الأحاديث الموضوعة ... قولهم:حبُّ الوطنِ منَ الإيمانِ".

(موضوعات الصغاني، الصفحة أو الرقم: 53)

"المقاصدُ الحسنة"میں ہے:

" حُبُّ الوطنِ منَ الإيمانِ. قال السخاويُّ: لم أقفْ عليه".

( المقاصد الحسنة للسخاوي، الصفحة أو الرقم: 218)

"الدررُ المنتثرة"میں ہے:

"حُبُّ الوطنِ من الإيمانِ. قال السيوطيُّ: لم أقفْ عليه".

( الدرر المنتثرة للسيوطي، الصفحة أو الرقم:65)

"الأسرارُ المرفوعة"میں ہے:

"حبُّ الوطنِ مِنَ الإيمانِ. قال عليُّ القاريُّ: قيل: لا أصلَ له أو بأصله موضوعٌ".

( الأسرار المرفوعة لملا علي القاري، الصفحة أو الرقم: 189)

البتہ محدثین میں سے علامہ سخاوی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : روایت اگرچہ صحیح نہیں، لیکن اس کا معنی درست ہے۔

"وقال في المقاصد: لم أقف عليه، ومعناه صحيحٌ".

جب کہ دیگر محدثین نے علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو قبول نہیں کیا اور ایمان اور وطن کی محبت کے تلازم کا انکار کیا ہے، اور ایمان کے جز ہونے کا انکار کیا ہے۔

"وردَّ القاريُّ قوله: (ومعناه صحيحٌ) بأنه عجيبٌ، قال: إذْ لا تلازمَ بين حُبِّ الوطن وبين الإيمان".

 مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جز قرار دینا اور اُس کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں۔ البتہ  بعض روایات سے وطن کی محبت کا ممدوح ہونا معلوم ہوتا ہے، تاہم اُن روایات میں سے کسی سے بھی  وطن کی محبت کا ایمان کا جز ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

۱۔ما أطيبَكِ مِن بلدةٍ وأحَبَّك إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرَجوني منكِ ما سكَنْتُ غيرَكِ. (صحيح ابن حبان، عن عبد الله بن عباس، الصفحة أو الرقم: 3709)

ترجمہ: ہجرت کے موقع پر مکہ کو مخاطب کرکے آپ علیہ السلام نے فرمایا : اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں کہیں اور نہ رہتا.

۲۔ اللَّهمَّ حبِّبْ إلينا المدينةَ كما حبَّبْتَ إلينا مكَّةَ وأشَد. اللَّهمَّ بارِكْ لنا في صاعِها ومُدِّها وانقُلْ وباءَها إلى مَهْيَعةَ. (وهي الجُحفةُ). (صحيح ابن حبان، عن عائشة، الصفحة أو الرقم: 5600)

ترجمہ: ہجرت کے بعد آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کے لیے دعا فرمائی : اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں مکہ کی محبت سے زیادہ فرمادے.

۳۔قال الإمامُ البخاريُّ ۔رحمه الله تعالي۔ في صحيحه:"«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَأَبْصَرَ دَرَجَاتِ المَدِينَةِ، أَوْضَعَ نَاقَتَهُ، وَإِنْ كَانَتْ دَابَّةً حَرَّكَهَا». قَالَ أَبُوعَبْدِاللَّهِ: زَادَ الحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ: حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا".

ترجمہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام جب سفر سے واپسی پر مدینہ تشریف لاتے تو مدینہ کے راستے یا مکانات نظر آتے ہی آپ علیہ السلام اپنی سواری کو مدینہ کی محبت میں تیز کردیتے.

وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالي في الفتح:"فيه دلالةٌ على فضل المدينة، وعلى مشروعيّة حُبِّ الوطن، والحنين إليه".

ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مدینہ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت کے جواز اور اس کی طرف شوق کا بھی پتا چلتا ہے.

وقال الإمامُ ابنُ بطال المالكيُّ -رحمه الله تعالى- في شرحه على صحيح البخاري:"قوله: (من حبها) يعني؛ لأنّها وطنه، وفيها أهله وولده الذين هم أحبُّ الناس إليه، وقد جبلَ اللهُ النفوسَ على حُبِّ الأوطان والحنين إليها، وفعل ذلك عليه السلام، وفيه أكرم الأسوة، وأمر أمته سرعة الرجوع إلى أهلهم عند انقضاء أسفاره".

ترجمہ: ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری تیز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کا وطن ہے، اور اس میں آپ ﷺ کے اہل وعیال تھے جو آپ ﷺ کو لوگوں میں سب سے محبوب تھے، اور جہاں انسان کے گھر والے ہوتے ہیں اس وطن سے قدرتی طور پر محبت کا ہونا اور وہاں لوٹ کر آنے پر خوش ہونا فطری عمل ہے، اور آپ علیہ السلام کے اس عمل میں بہترین نمونہ ہے، اور آپ ﷺ نے امت کو  سفر ختم ہونے کے بعد جلدی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم دی ہے.

۴۔فقال له ورقةُ: هذا الناموسُ الذي نزله اللهُ به على موسى، يا ليتَني فيها جذعٌ! ليتَني أكون حياً إذ يُخرجك قومُك! فقال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: أو مُخرجيَّ هم؟ قال: نعم، لم يأتِ رجلٌ قط بمثل ما جئتَ به إلا عُودي، وإن يُدركني يومُك أنصرُك نصراً مؤزراً. (صحيح البخاري، جزء: 1 صفحة: 4) قال السُهيليُّ: يُؤخذ منه شدّةُ مفارقةُ الوطن على النفس؛ فإنه -صلّى الله عليه وسلّم- سمع قول ورقةَ: إنهم يؤذونه ويكذبونه، فلم يظهر منه انزعاج لذلك، فلما ذكر له الإخراجُ؛ تحرّكت نفسه لذلك؛ لحُبِّ الوطن والفته، فقال: "أو مُخرجيَّ هم؟" (فتح الباري لابن حجر، جزء 12، صفحة: 359)

ترجمہ: جب آپ علیہ السلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے تو انہوںنے آپ علیہ السلام کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو جھٹلائےگی اور آپ کو اذیت دےگی اور آپ علیہ السلام کو اس شہر سے نکالےگی، تو آپ علیہ السلام نے ان تمام باتوں میں سے قوم کی جانب سے جلاوطنی پر تعجب ودکھ کا اظہار فرمایا کہ باقی تکالیف سہہ لی جاتی ہیں، لیکن وطن کی جدائی سہنا مشکل ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144204201238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں