بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت ادریس علیہ السلام كو موت نہیں آئی؟


سوال

کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو موت نہیں آئی؟   وہ جنت میں سیر کرنے گئے، جب واپس جانے کا وقت ہوا تو انہوں نے کہا کہ اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ جو ایک بار جنت میں آگیا تو واپس نہیں نکالوں گا ، پھر فرشتوں نے وہیں  چھوڑ دیا؟

جواب

حضرت ادریس علیہ السلام    کوموت سے پہلے   زندہ آسمانوں کی طرف اٹھایا جانا قطعی طور پر ثابت نہیں، حافظ ابن حجر اور حافظ ابن کثیر رحمہما اللہ نے  اس کے متعلق روایات کو رد کیا ہے  کہ یہ اسرائیلی روایات ہیں،  اور بعض روایتوں   میں نکارت ہے۔

فتح الباری میں ہے:

"وكون إدريس رفع، وهو حي لم يثبت من طريق مرفوعة قوية.  وقد روى الطبري: أن كعبا قال لابن عباس في قوله تعالى ورفعناه مكانا عليا: إن إدريس سأل صديقا له من الملائكة، فحمله بين جناحيه، ثم صعد به، فلما كان في السماء الرابعة تلقاه ملك الموت، فقال له: أريد أن تعلمني كم بقي من أجل إدريس؟ قال: وأين إدريس؟ قال: هو معي، فقال: إن هذا لشيء عجيب، أمرت بأن أقبض روحه في السماء الرابعة، فقلت: كيف ذلك وهو في الأرض؟ فقبض روحه، فذلك قوله تعالى: ورفعناه مكانا عليا. وهذا من الاسرائيليات، والله أعلم بصحة ذلك ".

(فتح الباري شرح صحيح البخاري: باب ذكر إدريس (6/ 375)، ط. دار المعرفة - بيروت ، 1379)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقد روى ابن جرير هاهنا أثرا غريبا عجيبا، فقال: حدثني يونس بن عبد الأعلى، أنبأنا ابن وهب، أخبرني جرير بن حازم عن سليمان الأعمش عن شمر بن عطية عن هلال بن يساف قال: سأل ابن عباس كعبا وأنا حاضر فقال له: ما قول الله عز وجل لإدريس ورفعناه مكانا عليا فقال كعب: أما إدريس، فإن الله أوحى إليه أني أرفع لك كل يوم مثل عمل جميع بني آدم، فأحب أن يزداد عملا، فأتاه خليل له من الملائكة فقال له: إن الله أوحى إلي كذا وكذا، فكلم لي ملك الموت فليؤخرني حتى أزداد عملا، فحمله بين جناحيه حتى صعد به إلى السماء، فلما كان في السماء الرابعة تلقاهم ملك الموت منحدرا، فكلم ملك الموت في الذي كلمه فيه إدريس، فقال: وأين إدريس؟ فقال: هوذا على ظهري. قال ملك الموت: العجب، بعثت وقيل لي: اقبض روح إدريس في السماء الرابعة، فجعلت أقول: كيف أقبض روحه في السماء الرابعة وهو في الأرض؟ فقبض روحه هناك، فذلك قول الله ورفعناه مكانا عليا.

هذا من أخبار كعب الأحبار الإسرائيليات، وفي بعضه نكارة، والله أعلم".

(تفسير ابن كثير: سورة مريم (5/ 213)، ط. دار الكتب العلمية، منشورات محمد علي بيضون - بيروت، الطبعة  الأولى : 1419 هـ)

حضرت مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

’’اور بعض  روایات میں جو ان کا آسمان پر اٹھانا منقول ہے، ان کے متعلق  ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہیں اور اُن میں سے بعض میں نکارت واجنبیت ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَرَفَعْنٰهُ مَکَانًا عَلِیًّاکے معنی یہ ہے کہ اُن کو نبوت و رسالت اور قرب الٰہی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بہرحال قرآن کریم کے الفاظِ مذکورہ صریح نہیں ہے کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے انکار رفع الی السماء قطعی نہیں ہے‘‘۔

(معارف القرآن: تفسير سورة مريم (6/ 41، 42)، ط. مكتبة معارف القرآن، طبع جديد، 1429هـ = 2008م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں