بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قرآن کریم میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں؟


سوال

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق قران پاک میں 300 آیات نازل ہوئی ہیں، تفصیل سے بیان کر دیں کہ کس کس  جگہ قران پاک میں  حضرت علی رضی اللہ عنہ کاذکر آیا ہے؟

جواب

امیر المؤمنین ،حیدر ِکرار، حضرت سیدنا علی المرتضی ٰرضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت کے حوالے سے اگر چہ  قرآن کریم میں آیات کا نزول ہوا ہے،لیکن سوال میں ذکر کردہ بات کہ "قرآن کریم میں آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوآیات نازل ہوئی ہیں" تو یاد رہے کہ اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ،بلکہ یہ روافض کے عقیدۂ تحریف ِ قرآن پر مبنی فکر کا نتیجہ ہےاور  روافض کی جانب سےحضرت علی رضی اللہ عنہ کی  طرف منسوب کیے جانے والے ان افتراءات میں سے ہے، جوبغیر علمی بصیرت کےمحض نفسانی خواہشات سے حاصل ہونے والے جوش ِ محبت کی مبالغہ آرائی کا نتیجہ ہیں،جس  سےاصل اور بنیادی مقصد ہر حد سے گزر کر  رطب ویابس روایات کے ذریعہ آپ رضی اللہ عنہ کی طرف بے سروپا فضائل کو  منسوب کرناہے،جب کہ درحقیقت حضرت علی رضی اللہ  عنہ کی ذات بابرکات   اس  سے بہت زیادہ بلند  ہے کہ آپ کے فضائل و مناقب کے لیےموضوع و من گھڑت روایات کاسہارا لے کر کتابوں کے اوراق کو سیاہ کیا جاۓ،اصولی اعتبار سےآپ رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان  قرآن کریم کی ان تمام آیتوں کے عموم میں  داخل ہیں جن میں مطیعین اور ان کے فضائل و انعامات کا تذکرہ ہوا ہے،لیکن تین سو آیات کا خاص طور پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخصوص ہونے کی بات بالکل درست نہیں؛لہٰذا اس قسم کی باتوں اور نظریات سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔

التفسیر والمفسرون میں ہے:

"وأحسب أن الإمامية الإثني عشرية، عزَّ عليهم أن يكون القرآن غير صحيح فى عقيدتهم بالنسبة للأئمة وموافقيهم، وبالنسبة لأعدائهم ومخالفيهم، وكأنِّى بهم وقد تساءلوا فيما بينهم فقالوا: إذا كان القرآن جُلّه وارداً فى شأن الأئمة وشيعتهم، وفى شأن أعدائهم ومخالفيهم، فلِمَ لَمْ يأت القرآن بذلك صريحاً مع أنه المقصود أولاً بالذات؟ ولِمَ اكتفى بالإشارة الباطنة فقط؟.. كأنِّى بهم بعد هذا التساؤل، وبعد هذا الاعتراض الذى أخذ بخناقهم، وراحوا يتلمسون للتخلص منه كل سبيل، فلم يجدوا أسهل من القول بتحريف القرآن وتبديله، فقالوا: إن القرآن الذى جمعه علىّ عليه السلام، وتوارثه الأئمة من بعده، هو القرآن الصحيح الذى لم يتطرق إليه تحريف ولا تبديل، أما ما عداه فمحرَّف ومبدَّل، حُذِف منه كل ما ورد صريحاً فى فضائل آل البيت، وكل ما ورد صريحاً فى مثالب أعدائهم ومخالفيهم. وأخبار التحريف متواترة عند الشيعة، ولهم فى ذلك روايات كثيرة يروونها عن آل البيت، وهم منها براء.

يروى الكافى عن الصادق: أن القرآن الذى نزل به جبريل على محمد سبعة عشر ألف آية، والتى بأيدينا منها ستة آلاف ومائتان وثلاث وستون آية، والبواقى مخزونة عند أهل البيت فيما جمعه علىّ.

ويقولون: إن سورة "لم يكن" كانت مشتملة على اسم سبعين رجلاً من قريش بأنسابهم وآبائهم. وإن سورة "الأحزاب" كانت مثل سورة "الأنعام" أسقطوا منها فضائل أهل البيت، وإن سورة "الولاية" أُسقطت بتمامها … وغير ذلك من خرافاتهم.

وأخف ما لهم فى هذا الموضوع هو "أن جميع ما فى المصحف كلام الله، إلا أنه بعض ما نزل، والباقى مما نزل عند المستحفظ لم يضع منه شئ، وإذا قام القائم يقرؤه الناس كما أنزله الله على ما جمعه أمير المؤمنين علىّ".

ولقد اصطدم مدَّعو التحريف والتبديل، بنصوص من القرآن صريحة فى هدم مدَّعاهم هذا، فمن تلك النصوص: قوله تعالى فى الآية [9] من سورة الحِجْر: {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكر وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} .. ولكن سرعان ما تخلَّصوا منها بالتأويل فقالوا: {وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} أى عند الأئمة، وبمثل هذا التأويل يتخلَّصون من باقى النصوص المعارضة لهم...

والحق أن الشيعة هم الذين حرَّفوا وبدَّلوا. فكثيراً ما يزيدون فى القرآن ما ليس منه، ويدَّعون أنه قراءة أهل البيت، فمثلاً نراهم عند قوله تعالى فى الآية [67] من سورة المائدة: {ياأيها الرسول بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ} .. يزيدون: "‌فى ‌شأن ‌علىّ"، وهى زيادة لم ترد إلا من طريقهم، وهى طريق مطعون فيها.

وهم الذين حرَّفوا القرآن أيضاً حيث تأوَّلوه على غير ما أنزل الله "قيل للصادق: ألم يكن علىّ قوياً فى دين الله؟ قال: بلى. قيل: فكيف ظهر عليه القوم ولم يدفعهم؟ وما منعه من ذلك قال؟ الصادق: آية فى كتاب الله منعته. قيل: أى آية؟ قال: {لَوْ تَزَيَّلُواْ لَعَذَّبْنَا الذين كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً} [الفتح: 25] ، كان لله ودائع مؤمنون فى أصلاب قوم كافرين ومنافقين، ولم يكن علىّ يقتل الآباء حتى تخرج الودائع، فلما خرجت ظهر علىّ على مَن ظهر فقتلهم".

وروى العياشى عن الباقر أنه قال: "لما قال النبى: "اللَّهم أعز الإسلام بعمر بن الخطاب أو بعمرو بن هشام" أنزل الله: {وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ المضلين عَضُداً} .

[الكهف: 51] وتقول أُصول الكافى فى قوله تعالى فى الآية [137] من سورة النساء: {إِنَّ الذين آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ ازدادوا كُفْراً لَّمْ يَكُنِ الله لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً} : إن هذه الآية نزلت فى أبى بكر وعمر وعثمان، آمنوا بالنبى أولاً، ثم كفروا حيث عُرضت عليهم ولاية علىّ، ثم آمنوا بالبيعة لعلىّ، ثم كفروا بعد موت النبى. ثم ازدادوا كفراً بأخذ البيعة من كل الأُمة.

هذه أمثلة نذكرها ونضعها بين يدى القارئ الكريم ليحكم بنفسه حكماً صادقاً: أن هؤلاء الشيعة، الذين يدَّعون التحريف والتبديل للقرآن، هم أنفسهم المحرَّفون لكتاب الله، المبدلِّون فيه، بصرفهم ألفاظ القرآن إلى غير مدلولاتهم وتقولهم على الله بالهوى والتشهى."

(‌‌الباب الثالث: المرحلة الثالثة للتفسير.. أو التفسير فى عصور التدوين، ‌‌الشيعة وموقفهم من تفسير القرآن الكريم، تحريف القرآن وتبديله، ج:2، ص:27،28،29، ط:مكتبة وهبة)

سرِدست ذیل میں ان آیات کو مع مختصرتشریح ذکر کیا جارہا ہے جوصحیح روایات کے مطابق  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت  سے تعلق رکھتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:

1:سورة آل عمران ميں ہے:

"فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا ‌نَدْعُ ‌أَبْناءَنا ‌وَأَبْناءَكُمْ وَنِساءَنا وَنِساءَكُمْ وَأَنْفُسَنا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ (61)."

ترجمہ:پس جو شخص آپ سے اس (عیسیٰ (علیہ السلام) کے باب) میں (اب بھی) حجت کرے آپ کے پاس علم (قطعی) آئے پیچھے تو آپ فرمادیجئیے کہ آجاؤ ہم ( اور تم) بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمھاری عورتوں کو اور خود اپنے تنوں کو اور تمھارے تنوں کو پھر ہم ( سب مل کر) خوب دل سے دعا کریں اس طور سے کہ الله کی لعنت بھیجیں ان پر جو (اس بحث میں) ناحق پر ہوں."(بیان القرآن)

تشریح:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاری کی جانب  ایک فرمان بھیجا تھا، جس میں تین چیزیں  ترتیب وا رذکر کی گئی تھیں کہ  یااسلام قبول کر لو یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے ایک وفد حضور ﷺکی خدمت میں بھیجا، ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی ،یہاں تک کہ  عیسی علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں انتہائی بحث ،مبالغہ آرائی اور تکرار سے کام لیا، اتنے میں یہ آیتِ مباہلہ نازل ہوئی تو آپ علیہ السلام نےنصاری کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضراتِ حسن وحسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لیے تیار ہو کر تشریف لائےاور ان ہستیوں کو بھی اپنے اہل میں سےقراردیا ۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وكان سبب نزول هذه المباهلة وما قبلها من أول السورة إلى هنا في وفد نجران، أن النصارى لما قدموا فجعلوا يحاجون في عيسى ويزعمون فيه ما يزعمون من النبوة والإلهية، فأنزل الله صدر هذه السورة ردا عليهم كما ذكره الإمام محمد بن إسحاق بن يسار وغيره. قال ابن إسحاق في سيرته المشهورة وغيره: قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وفد نصارى نجران.... قال: فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخذ بيد علي وفاطمة والحسن والحسين، ثم أرسل إليهما، فأبيا أن يجيبا وأقرا له بالخراج، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «والذي بعثني بالحق لو قالا: لا، لأمطر عليهم الوادي نارا» قال جابر، وفيهم نزلت ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم."

(سورة آل عمران، الآية:61، ج:2، ص:42،47، ط:دارالكتب العلمية)

مسند احمد میں ہے:

"ولما نزلت هذه الآية: {‌ندع ‌أبناءنا ‌وأبناءكم} [آل عمران: 61]، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، وفاطمة، وحسنا، وحسينا، رضوان الله عليهم، فقال: " اللهم هؤلاء أهلي."

(‌‌مسند الخلفاء الراشدين، ومن أخبار عثمان بن عفان رضي الله عنه، ج:3، ص:160، ط: مؤسسة الرسالة)

2:سورۃ ُالتوبۃ میں ہے:

"أَجَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (التوبة:19)."

ترجمہ:کیا تم لوگوں نے حجاج کے پانی پلانے کو اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کی برابر قرار دے لیا جو کہ الله پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے الله کی راہ میں جہاد کیا ہو یہ لوگ برابر نہیں الله کے نزدیک اور جو لوگ بےانصاف ہیں  الله تعالیٰ ان کو سمجھ نہیں دیتا."(بیان القرآن)

تشریح:بہت سے مشرکین ِ مکہ مسلمانوں کے مقابلے میں اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم مسجد حرام کی آبادی اور حجاج کو پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر کسی کا کوئی عمل نہیں ہو سکتا، اسلام لانے سے پہلے جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں آئے اور ان کے عزیزوں نےانہیں اس بات پر ملامت کی کہ آپ نعمتِ ایمان سے محروم ہیں تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ لوگ ایمان اور ہجرت کو اپنا بڑا سرمایۂ فضیلت سمجھتے ہیں مگر ہم بھی تو مسجد حرام کی عمارت اور حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمت کے متولی ہیں ،جن کے برابر کسی کا عمل نہیں ہو سکتا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ 

مسند عبدالرزاق کی بعض روایات میں ہے کہ حضرت عباس کے مسلمان ہو جانے کے بعد طلحہ بن شیبہ ،حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین  کےدرمیان گفتگو ہو رہی تھی ،طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ  مجھے وہ فضیلت حاصل ہے جو تم میں سے کسی کو حاصل نہیں کہ بیت اللہ کی چابی میرے ہاتھ میں ہے اگر میں چاہوں تو بیت اللہ کے اندر جا کر رات گزار سکتا ہوں ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حجاج کو پانی پلانے کا منتظم اور متولی ہوں اور مسجد حرام کے اختیارات میرے ہاتھ میں  ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ حضرات کس چیز پر فخر کر رہے ہیں؟ میرا حال تو یہ ہے کہ میں نے سب لوگوں سے چھ مہینہ پہلے بیت اللہ کی طرف ُرخ کرکے نمازیں پڑھی ہیں اوررسول اللہ کے ساتھ جہاد میں شریک رہا ہوں۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی،جن میں واضح کردیا گیا کہ کوئی عمل کتنا ہی اعلیٰ وافضل ہو ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں اور نہ حالتِ شرک میں ایسے اعمال کا کرنےو الا اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔

جس میں  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی راۓ کی تائید کرتے ہوۓایمان کے بعد جہاد  فی سبیل اللہ کوعمارتِ مسجدحرام اور سقایۂ حجاج سےافضل عمل قراردیا گیااور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ کوئی عمل خواہ کتنا ہی اعلی اور افضل کیوں نہ ہو،ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں اور نہ حالت شرک میں ایسے اعمال کا کرنے والا اللہ کے نزدیک مقبول ہے؛اس لیے کسی مشرک کو عمارت ِمسجد یا سقایۂ حجاج کی وجہ سے کوئی فضیلت و برتری و بزرگی حاصل نہیں ہوسکتی،جومسلمان ایمان اور جہاد  میں مقدم رہے وہ ان مسلمانوں سے افضل ہیں جنہوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی ،صرف مسجد حرام کی تعمیر اور حجاج کے پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے رہے۔

صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر کی روایت سے اس آیت کے نزول کے متعلق یہ واقعہ منقول ہے کہ  ایک روز جمعہ کے دن مسجد نبوی میں چند حضرات ،صحابہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس جمع تھے،حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ اسلام اور ایمان کے بعد میرے نزدیک حجاج کو پانی پلانے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، مجھے اس کے مقابلے میں کسی دوسرے عمل کی پرواہ نہیں، ایک دوسرے صاحب نے ان کے جواب میں کہا کہ نہیں ،اللہ کی راہ میں جہاد سب سے بڑا عمل ہے،ان دونوں میں بحث ہونے لگی،توحضرت عمر نےان کو ڈانٹ کر کہا کہ منبرنبوی کے پاس شور وشغب نہ کرو،مناسب بات یہ ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد یہ بات خود رسول اللہ سے دریافت فرما لو ،اس تجویز کے مطابق آپ علیہ السلام سے دریافت کیا گیاتو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں جہاد کو عمارت مسجد حرام اورسقایہ حجاج سے افضل عمل بتایا گیا۔

اس میں کوئی بُعد نہیں کہ اصلاًآیت کا نزول تومشرکین کےفخرو تکبر کےجواب میں ہوا ہو پھر اس کے بعد جو واقعات مسلمانوں کے درمیان باہم پیش آئے ان میں بھی انہی آیات کو استدلال کے لیے پیش کیا گیا ہو جس سےسننے والوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہ آیات اس واقعے میں نازل ہوئیں ،بہرحال آیت مذکورہ میں  واضح کردیا گیا  کہ شرک کے ساتھ  کوئی عمل کتنا ہی بڑا ہومقبول اور قابل ذکر نہیں ،اس لیے کسی مشرک کو عمارت مسجد یا سقایہ  حجاج کی وجہ سے کوئی فضیلت و برتری و بزرگی حاصل نہیں ہوسکتی،ایمان کے بعد بھی ایمان اور جہاد کا درجہ بنسبت عمارتِ مسجد حرام اور سقایۂ حجاج کے بہت زیادہ ہے، جو مسلمان ایمان اور جہاد  میں مقدم رہے وہ ان مسلمانوں سے افضل ہیں ،جنہوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی ،صرف مسجد حرام کی تعمیر اور حجاج کے پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے رہے اور اس   آیت سے مسند عبدالرزاق کی روایت کے  مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی راۓ کی من جانب اللہ تائید کی گئی ۔(بتغییر یسیر،سورۃ التوبۃ،الآیۃ:19،ج:4،ص:333،334،335، ط:مکتبہ معارف القرآن،کراچی)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"قال العوفي في تفسيره عن ابن عباس في تفسير هذه الآية قال: إن المشركين قالوا: عمارة بيت الله وقيام على السقاية خير ممن آمن وجاهد، وكانوا يفخرون بالحرم ويستكبرون به من أجل أنهم أهله وعماره، فذكر الله استكبارهم وإعراضهم، فقال لأهل الحرم من المشركين قد كانت آياتي تتلى عليكم فكنتم على أعقابكم تنكصون مستكبرين به سامرا تهجرون [المؤمنون:

67] يعني أنهم كانوا يستكبرون بالحرم قال به سامرا [المؤمنون: 67] كانوا يسمرون به ويهجرون القرآن والنبي صلى الله عليه وسلم فخير الله الإيمان والجهاد مع النبي صلى الله عليه وسلم على عمارة المشركين البيت وقيامهم على السقاية ولم يكن ينفعهم عند الله مع الشرك به، وإن كانوا يعمرون بيته ويحرمون به. قال الله تعالى: لا يستوون عند الله والله لا يهدي القوم الظالمين يعني الذين زعموا أنهم أهل العمارة فسماهم الله ظالمين بشركهم فلم تغن عنهم العمارة شيئا.

وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس في تفسير هذه الآية قال: قد نزلت في العباس بن عبد المطلب حين أسر ببدر قال: لئن كنتم سبقتمونا بالإسلام والهجرة والجهاد لقد كنا نعمر المسجد الحرام ونسقي ونفك العاني، قال الله عز وجل: أجعلتم سقاية الحاج- إلى قوله- والله لا يهدي القوم الظالمين يعني أن ذلك كله كان في الشرك ولا أقبل ما كان في الشرك، وقال الضحاك بن مزاحم: أقبل المسلمون على العباس وأصحابه الذين أسروا يوم بدر يعيرونهم بالشرك، فقال العباس: أما والله لقد كنا نعمر المسجد الحرام ونفك العاني ونحجب البيت ونسقي الحاج، فأنزل الله أجعلتم سقاية الحاج الآية.

وقال عبد الرزاق: أخبرنا ابن عيينة عن إسماعيل عن الشعبي: قال: نزلت في على والعباس رضي الله عنهما بما تكلما في ذلك، وقال ابن جرير: حدثني يونس، أخبرنا ابن وهب، أخبرني ابن لهيعة عن أبي صخر قال: سمعت محمد بن كعب القرظي يقول افتخر طلحة بن شيبة من بني عبد الدار وعباس بن عبد المطلب وعلي بن أبي طالب فقال طلحة: أنا صاحب البيت معي مفتاحه ولو أشاء بت فيه. وقال العباس: أنا صاحب السقاية والقائم عليها ولو أشاء بت في المسجد، فقال علي رضي الله عنه: ما أدري ما تقولان لقد صليت إلى القبلة ستة أشهر قبل الناس وأنا صاحب الجهاد، فأنزل الله عز وجل أجعلتم سقاية الحاج الآية كلها.

وهكذا قال السدي إلا أنه قال: افتخر علي والعباس وشيبة بن عثمان وذكر نحوه، وقال عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن عمرو عن الحسن قال: نزلت في علي وعباس وعثمان وشيبة تكلموا في ذلك، فقال العباس: ما أراني إلا أني تارك سقايتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «أقيموا على سقايتكم فإن لكم فيها خيرا» ورواه محمد بن ثور: عن معمر عن الحسن فذكر نحوه." 

(سورة التوبة، الآية؛19، ج:4، ص:107،108، ط:دارالكتب العلمية)

3:سورۃُ الحج میں ہے:

"{‌هَذَانِ ‌خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ ‌‌(الحج:19)."

ترجمہ:"یہ (مومن اور کافر) دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا کیا ہے۔ اب (اس کا فیصلہ اس طرح ہوگا کہ) جن لوگوں نے کفر اپنا یا ہے، ان کے لیے آگ کے کپڑے تراشتے جائیں گے، ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی چھوڑا جائے گا."

تشریح:یہ دو فریق جن کا ذکر اس آیت میں ہے ،عام مومنین اور ان کے مقابلے میں تمام گروہ کفار ہیں ،خواہ قرنِ اول کے ہوں یا قرون مابعد کے،البتہ نزول اس آیت کا ان دو فریقین کے بارے میں ہوا ہے جو میدان بدر کے مبارزہ میں ایک دوسرے کے مقابل نبرد آزما ہوئے تھے،مسلمانوں میں سے حضرت علی ، حمزہ اورعبیدہ بن حارث رضوان اللہ علیہم أجمعین اور کفار میں سے عتبہ بن ربیعہ ،اس کا بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹاولید بن عتبہ ، جن میں سے کفار تو تینوں مارے گئے اور مسلمانوں میں حضرت علی اورحمزہ رضی اللہ عنہماصحیح سالم واپس آۓ اور عبیدہ رضی اللہ عنہ  شدید زخمی ہوکر آئے اور آپ علیہ السلام کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیا ۔آیت کا نزول ان  مبارزینِ بدر کے بارے میں ہونا بخاری اور مسلم کی احادیث سے ثابت ہے،لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ حکم ان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ پوری امت کے لیے عام ہے،چاہےکسی بھی زمانے میں ہو۔(معارف القرآن، سورۃ الحج، الآیۃ:19،ج:6،ص:249،ط:مکتبہ معارف القرآن،کراچی) 

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"ثبت في الصحيحين من حديث أبي مجلز عن قيس بن عباد عن أبي ذر: أنه كان يقسم قسما أن هذه الآية ‌هذان ‌خصمان اختصموا في ربهم نزلت في حمزة وصاحبيه، وعتبة وصاحبيه يوم برزوا في بدر، لفظ البخاري عند تفسيرها، ثم قال البخاري : حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا المعتمر بن سليمان، سمعت أبي، حدثنا أبو مجلز عن قيس بن عباد عن علي بن أبي طالب أنه قال: أنا أول من يجثو بين يدي الرحمن للخصومة يوم القيامة، قال قيس: وفيهم نزلت: ‌هذان ‌خصمان اختصموا في ربهم قال: هم الذين بارزوا يوم بدر علي وحمزة وعبيدة وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة والوليد بن عتبة. انفرد به البخاري."

(سورة الحج، الآية:19، ج:5، ص:356، ط:دارالكتب العلمية)

4:سورۃ ُالمجادلۃ میں ہے:

"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا ناجَيْتُمُ الرَّسُولَ ‌فَقَدِّمُوا ‌بَيْنَ ‌يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً ذلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (المجادلۃ:12)

ترجمہ:اے ایمان والوجب تم رسول سے سرگوشی (کرنے کا ارادہ) کیا کرو تو اپنی اس سرگوشی سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دیدیا کرو  یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور (گناہوں سے ) پاک ہونے کا اچھا ذریعہ ہے  پھر اگر تم کو (صدقہ دینے کی ) مقدور نہ ہو تو اللہ غفور رحیم ہے."(بیان القرآن)

تشریح:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس عامہ میں سب حاضرین مجلس آپ کے ارشادات سے فائدہ اٹھاتے تھے،اس سلسلے میں ایک صورت یہ بھی تھی کہ بعض لوگ آپ ﷺسے علیحدگی میں خفیہ بات کرنا چاہتے اور آپ وقت دے دیتے ، اس طرح ظاہر ہے کہ ایک ایک شخص کو الگ وقت دینا بڑی  دقت بھی چاہتا ہے اور محنت بھی ،اس میں کچھ منافقین کی شرارت بھی شامل ہوگئی کہ مخلص مسلمانوں کو ایذاء پہونچانے کے لیے آپ علیہ السلام سے علیحدگی اور سرگوشی کا وقت مانگتے اور اس میں مجلس کو  طویل کر دیتے تھے، بعض ناواقف مسلمان بھی بات لمبی کر کے مجلس طویل کر دیتے تھے حق تعالی نے آپ ﷺسے یہ بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ابتداء میں حکم نازل فرمایا کہ جو کوئی آپ سے علیحدگی میں خفیہ بات کرنا چاہے وہ پہلے  صدقہ کر دے، اس صدقے کی کوئی مقدار قرآن میں منقول نہیں مگر جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب سے پہلے حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل فرمایا اور ایک دینار صدقہ کر کے آپ علیہ السلام سے علیحدگی میں بات کرنے کا وقت لیا ،یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس حکم سے چوں کہ بہت سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو تنگی پیش آئی اس لیے بہت جلد یہ حکم منسوخ کر دیا گیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے قرآن میں ایک آیت ایسی ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا، نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل نے کیا، نہ میرے بعد  کوئی کرے گا ،پہلے نہ کرنا تو ظاہر ہے ،بعد میں نہ کرنا اس لیے کہ آیت منسوخ ہو گئی، وہ آیت یہی تقدیم ِ صدقہ کی ہے،جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ (معارف القرآن ،بتغییر یسیر،سورۃ المجادلۃ،الآیۃ:20،ج:8،ص:347،348،ط:مکتبہ معارف القرآن،کراچی)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا ناجَيْتُمُ الرَّسُولَ أي إذا أردتم المناجاة معه عليه الصلاة والسلام لأمر ما من الأمور فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً أي فتصدقوا قبلها، وفي الكلام استعارة تمثيلية، وأصل التركيب يستعمل فيمن له يدان أو مكنية بتشبيه النجوى بالإنسان، وإثبات اليدين تخييل، وفي بَيْنَ ترشيح على ما قيل، ومعناه قبل، وفي هذا الأمر تعظيم الرسول صلى الله عليه وسلم ونفع للفقراء وتمييز بين المخلص والمنافق ومحب الآخرة ومحب الدنيا ودفع للتكاثر عليه صلّى الله تعالى عليه وسلم من غير حاجة مهمة،

فقد روي عن ابن عباس وقتادة أن قوما من المسلمين كثرت مناجاتهم للرسول عليه الصلاة والسلام في غير حاجة إلا لتظهر منزلتهم وكان صلى الله عليه وسلم سمحا لا يرد أحدا فنزلت هذه الآية.

وعن مقاتل أن الأغنياء كانوا يأتون النبي صلى الله عليه وسلم فيكثرون مناجاته ويغلبون الفقراء على المجالس حتى كره عليه الصلاة والسلام طول جلوسهم ومناجاتهم فنزلت

، واختلف في أن الأمر للندب أو للجواب لكنه نسخ بقوله تعالى:

أَأَشْفَقْتُمْ إلخ، وهو وإن كان متصلا به تلاوة لكنه غير متصل به نزولا، وقيل: نسخ بآية الزكاة والمعول عليه الاول، ولم يعين مقدار الصدقة ليجزي الكثير والقليل،

أخرج الترمذي وحسنه وجماعة عن علي كرم الله تعالى وجهه قال: لما نزلت يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا ناجَيْتُمُ إلخ قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: «ما ترى في دينار؟ قلت: لا يطيقونه، قال:

نصف دينار؟ قلت: لا يطيقونه، قال: فكم؟ قلت: شعيرة، قال: فإنك لزهيد» فلما نزلت أَأَشْفَقْتُمْ الآية قال صلى الله تعالى عليه وسلم: «خفف الله عن هذه الأمة»

ولم يعمل بها على المشهور غيره كرم الله تعالى وجهه،

أخرج الحاكم وصححه وابن المنذر وعبد بن حميد وغيرهم عنه كرم الله تعالى وجهه أنه قال: إن في كتاب الله تعالى لآية ما عمل بها أحد قبلي ولا يعمل بها أحد بعدي آية النجوى يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا ناجَيْتُمُ الرَّسُولَ إلخ كان عندي دينار فبعته بعشرة دراهم فكنت كلما ناجيت النبي صلى الله عليه وسلم قدمت بين يدي نجواي درهما ثم نسخت فلم يعمل بها أحد، فنزلت أَأَشْفَقْتُمْ الآية."

(سورة المجادلة، الآية:12، ج:14، ص:224،225، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں