بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضورﷺ سرڈھک کر سوتے تھے؟


سوال

کیاحضور ﷺسرڈھک کر سوتےتھے؟

جواب

واضح  رہے کہ با تفاقِ امتِ مسلمہ   آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  عمومًا  سر ڈھانک کر ہی رہا کرتے تھے، جس کے لیے عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے،ا ور اسی وجہ  سے شریعت میں  سر کا ڈھانپنا لباس کا حصہ ہے،چناں چہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کا بھی یہی معمول رہا ہے،اب سر ڈھانکنا خواہ عمامہ کے ذریعہ ہو  یا ٹوپی  کے  ذریعہ،جیساکہ احادیث میں   مذکور ہے، حدیث کی کوئی  مشہور کتاب ایسی موجود نہیں  جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ٹوپی اور عمامہ مبارک  کا ذکر   نہ ہوا ہو،اسی طرح آپ ﷺ کے سوتے وقت کی کیفیات اور معمولات کو بھی محدثین نے  مستقل کتابوں کی صورت میں ذکر فرمایا ہے،البتہ سوتے وقت آپ ﷺ سر مبارک ڈھانک کر سوتے تھے یا بغیر سر ڈھانکے،اس سلسلے میں  احادیث و آثار میں کوئی صراحت ہمیں  نہیں  ملی۔

اگرعام عادت   کے اعتبار سے بات کی جاۓ تو یہی معمول نظر آتا ہے کہ گرمی کے موسم میں انسان دن میں تو گرمی وغیرہ سے حفاظت کی غرض سے سر ڈھانکتا ہے لیکن رات میں سکون اور آرام کی غرض سے سر نہیں ڈھانکتا،چناں چہ بہت سی احادیث میں آپﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سےدن میں ٹوپی اور عمامہ کے علاوہ چادر وغیرہ سے بھی بکثرت سر ڈھانکنا ثابت ہے،لیکن رات میں  آپﷺ یا کسی صحابی سے سر ڈھانکنے سے متعلق کوئی روایت ہمارے علم میں نہیں آئی۔

نیز  آپ ﷺکی عاداتِ مبارکہ میں سے ایک عادت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ سے شدتِ حیاء کی بنا پر  آپ ازواجِ مطہرات سےصحبت کے وقت  اور بيت الخلاء ميں  قضاۓ حاجت کے وقت سر کوڈھانپ لیا کرتے تھےلیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ ﷺسوتے وقت بھی سر ڈھانپ کر رکھتے ہوں،لہٰذا مذکورہ سوال کےجواب میں احادیث کو دیکھتے ہوۓ یہی کہاجاسکتاہےکہ اس سلسلے میں اگرچہ آپﷺ سے کوئی عمل روایات میں صراحۃً یا اشارۃً ثابت نہیں  ہے لیکن  فطرت ومزاجِ انسانی کے اعتبار سے آپﷺ کا   ٹوپی سےسر مبارک ڈھانکے بغیر سونا ہی راجح معلوم ہوتاہے۔ ہاں فطرت کے اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ سردیوں کے موسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی  وغیرہ سے سر مبارک ڈھانک کر سوتے ہوں ۔

زاد المعادمیں ہے:

"كانت له عمامة تسمى: السحاب كساها علياً، وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة، و كان يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة."

(فصل في ملابسه صلى الله عليه وسلم،ص:45،ط:دار الکتب العلمیة)

وفیہ ایضاً:

"قال أنس: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر دهن رأسه ولحيته، و يكثر القناع كأن ثوبه ثوب زيات."

(فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الفطرة وتوابعها،ص:56 دار الکتب العلمیة)

وفیہ ایضاً:

"و أما ‌ما ‌جاء ‌في حديث الهجرة أن النبي صلى الله عليه وسلم جاء إلى أبي بكر متقنعًا بالهاجرة، فإنما فعله النبي صلى الله عليه وسلم تلك الساعة ليختفي بذلك، ففعله للحاجة.

و لم تكن عادته التقنع. وقد ذكر أنس عنه صلى الله عليه وسلم  أنه كان يكثر القناع، وهذا إنما كان يفعله ــ والله أعلم ــ للحاجة من الحر ونحوه."

(فصل في ملابسه صلى الله عليه وسلم،ص:47،دارالکتب العلمیة)

لمعات التنقیح میں ہے:

"و قوله: (‌متقنعًا) التقنع: ستر الرأس بالرداء وإلقاء طرفه على الكتف، ويقال له: التطلس أيضا بمعنى لبس الطيلسان على الرأس، ودل الحديث على فعله صلى الله عليه وسلم ذلك وجوازه، وقد خالف فيه بعض الناس، والحديث رد عليهم، وبعضهم قالوا: يجوز لسبب أو عذر كما فعله صلى الله عليه وسلم اتقاء الحر أو استخفاء من قريش، والصحيح أنه جائز مطلقا، وهو من أفعال الصالحين، وقد روي ذلك عنه صلى الله عليه وسلم وعظماء أصحابه والتابعين."

(کتاب اللباس، الفصل الأول،335/7،دارالنوادر)

سبل الہدیٰ والرشاد میں ہے:

"روى ابن أبي شيبة والقاضي أبو بكر المروزيّ في مسند عائشة رضي الله تعالى عنها قالت: ما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أحدا ‌من نسائه إلا ‌متقنّعا رأسه حياء، وما رأيت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وما رأى مني.

وروى البيهقي عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء غطّى رأسه وإذا أتى أهله غطّى رأسه."

(‌‌الباب الثامن في آدابه صلّى الله عليه وسلم عند النكاح والجماع وقوته على كثرة الوطء،‌‌ الأول: في حيائه صلى الله عليه وسلم،72/9،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں