بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت موسیٰ کی زبان میں لکنت تھی؟


سوال

واحلل عقدة من لساني ( سورۃ طٰہ) کیا حضرت موسیٰ کی زبان میں لکنت تھی ؟ تسلی بخش جواب دیں ۔ 

جواب

 واضح رہے کہ بچپن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ا بن کثیر) جب اللہ تعالٰی نے  حضرت موسیٰ علیہ السلام  کو تبلیغ کا حکم دیا تو انھوں نے اور چیزوں کے لیے دعا کے ساتھ خاص طور پر اپنی زبان کی بندش کو ختم کرنے کی بھی دعا کی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں،چنانچہ آپ کی زبان میں پھر بھی کچھ کسر رہ گئی تھی جیسے کہ فرعون نے کہا تھا کہ کیا میں بہتر ہوں یا یہ؟ جو فرد مایہ ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا،حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ایک گرہ کھلنے کی دعا کی تھی جو پوری ہوئی۔ اگر پوری دعا کی ہوتی تو وہ بھی پوری ہوتی، آپ نے صرف اسی قدر دعا کی تھی کہ آپ کی زبان ایسی کر دی جائے کہ لوگ آپ کی بات سمجھ لیا کریں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولي} ‌وذلك ‌لما ‌كان ‌أصابه ‌من ‌اللثغ، ‌حين ‌عرض ‌عليه ‌التمرة ‌والجمرة، ‌فأخذ ‌الجمرة ‌فوضعها ‌على ‌لسانه، ‌كما ‌سيأتي ‌بيانه، ‌وما ‌سأل ‌أن ‌يزول ‌ذلك ‌بالكلية، ‌بل ‌بحيث (3) ‌يزول ‌العي، ‌ويحصل ‌لهم ‌فهم ‌ما ‌يريد ‌منه ‌وهو ‌قدر ‌الحاجة. ولو سأل الجميع لزال، ولكن الأنبياء لا يسألون إلا بحسب الحاجة، ولهذا بقيت بقية، قال الله تعالى إخبارا عن فرعون أنه قال: {أم أنا خير من هذا الذي هو مهين ولا يكاد يبين} [الزخرف 52] أي: يفصح بالكلام.

وقال الحسن البصري: {واحلل عقدة من لساني} قال: حل عقدة واحدة، ولو سأل أكثر من ذلك أعطي.

وقال ابن عباس: شكا موسى إلى ربه ما يتخوف من آل فرعون في القتيل، وعقدة لسانه، فإنه كان في لسانه عقدة تمنعه من كثير من الكلام، وسأل ربه أن يعينه بأخيه هارون يكون له ردءا ويتكلم عنه بكثير مما لا يفصح به لسانه، فآتاه سؤله، فحل عقدة من لسانه."

(سورۃ طہ،ج:5،ص:282،ط:دارطیبہ لنشر)

تفسیر طبری میں ہے:

"{‌واحلل ‌عقدة ‌من ‌لساني} [طه: 27] لجمرة نار أدخلها في فيه عن أمر امرأة فرعون، تدرأ به عنه عقوبة فرعون، حين أخذ موسى بلحيته وهو لا يعقل، فقال: هذا عدو لي، فقالت له: إنه لا يعقل هذا قول سعيد بن جبير."

(سورۃ طہ،ج،16،ص:53،ط دار ھجر)

الھدایہ بلوغ النھایہ میں ہے:

"{‌واحلل ‌عُقْدَةً ‌مِّن ‌لِّسَانِي * يَفْقَهُواْ قَوْلِي} أي يفهموا عني ما أقول لهم، وأبلغهم عنك. ففعل الله به ما سأل.

وقيل: إنه إنما زال بعض ما كان في لسانه من الحبسة ولم يزل كله بدلالة قول فرعون {أَمْ أَنَآ خَيْرٌ مِّنْ هذا الذي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ} [الزخرف: 52] وقد يجوز أن يكون كان هذا قبل أن يزيل الله ما كان به، ثم أزاله كله بعد ذلك. والله أعلم."

(طہ،ج:4،ص:4632،ط:جامعہ شارقۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں