بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ہتھیار رکھنا سنت ہے؟


سوال

کیا ہتھیار رکھنا سنت ہے؟

جواب

اسلامی  ریاست کی حفاظت  ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کے لئے اسلحہ رکھنا   سنت نہیں، فرض  کفایہ   ہے، جناب رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلامی ریاست کی  حفاظت کی ذمہ داری عام مسلمانوں کے ذمہ پر تھی، ان میں سے ہر مسلمان فوجی تھا،   لیکن موجودہ زمانہ  میں  یہ ذمہ دار ی حکومت کے مخصوص ادارے کی ہے، اب ملک کی دفاع کے لئے اسلحہ رکھنا  عام  مسلمانوں پر فرض نہیں، یہ ذمہ داری حکومت اور متعلقہ ادارے کی ہے کہ دفاع کے لئے بہتر سے بہتر اور جدید سے جدید اسلحہ کا انتظام  کرے۔

نیز رعایا کی جان ومال کی حفاظت کے ذمہ داری بھی حکومت اور سیکورٹی اداروں پر ہے، اگر وہ اس ذمہ داری کو پوری نہیں کرتی تو  عام آدمی کے لئےاپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے ضرورت کے مطابق  اسلحہ رکھنا جائز ہے، لیکن اس کے علاوہ عام لوگوں کے لئے بے مقصد اپنے پاس اسلحہ رکھنا  پسندیدہ نہیں، بلکہ  ان کے غلط استعمال سے کسی کو  نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں، اسی طرح غیر قانونی اسلحہ رکھنے کی بھی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

بذل المجہود  فی حل سنن ٲبی داود میں ہے:

"قال في "التفسير الكبير": والمراد بالقوة ها هنا ما يكون سببا لحصول القوة، وذكروا فيه وجوها: الأول: المراد من القوة أنواع الأسلحة، والثاني: أن القوة الرمي، قالها - صلى الله عليه وسلم - ثلاثا على المنبر، الثالث: القوة هي الحصون، الرابع: قال أصحاب المعاني: الأولى أن يقال: هذا عام في كل ما يتقوى به على حرب العدو، وكل ما هو آلة للغزو والجهاد فهو من جملة القوة، وقوله - عليه الصلاة والسلام -: "القوة هي الرمي"، لا ينفي كون غير الرمي معتبرا، كما أن قوله - عليه الصلاة والسلام -: "الحج عرفة" و "الندم توبة" لا ينفي اعتبار غيره، بل يدل على أن هذا المذكور جزء شريف من المقصود، فكذا ها هنا.

وهذه الآية تدل على أن الاستعداد للجهاد بالنبل والسلاح وتعليم الفروسية والرمي فريضة، إلا أنه من فروض الكفايات".

(بذل المجهود شرح سنن أبي داود: باب في الرمي (9/ 70)، ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعةالأولى:1427هـ =2006 م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں