بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حالتِ حمل میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے،اور مطلقہ عدت کہاں گزارے گی،نیز بچے کی پرورش اور نفقہ کس پر لازم ہو گا؟


سوال

میرے شوہر نے مجھے عید کے تیسرے دن ایک طلاق دی( اس طرح  کہ شوہر نے اپنی دونوں بہنوں اور والدہ کے سامنے کہا کہ آپ گواہ رہیں، میں اس کو طلاق دے رہا ہوں)پھر اس نے رجوع کر کے دوبارہ ساتھ رہنے لگے،اس دوران حمل ٹھہر گیا،6 جنوری 2022 کو شوہر نے دو دفعہ مزید طلاق دی۔(کہ میں تیرے کو طلاق دے رہاہوں،دو دفعہ کہا)

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟اگر ہوتی ہے تو عدت کہاں گزاروں ؟ اور عدت کب ختم ہو گی؟

ہمارا ایک بیٹا بھی ہے،اس کی پرورش اور خرچ کس کے ذمہ ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح عام حالت میں بیوی کو طلاق دینے سے شرعاً طلاق واقع ہو  جاتی ہےاسی طرح حالتِ حمل میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کے شوہر نے  پہلے ایک طلاق دے کر رجوع کر لیا تھا،اور اس کے بعد اب مزید دو مرتبہ طلاق دی ہے،تو ایسی صورت میں سائلہ پر مجموعی طور پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،اور سائلہ شوہر  پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ٹوٹ چکا ہے، اب رجوع جائز نہیں ،  سائلہ پر اپنی عدت(بچے کی پیدائش تک  ) شوہر کے گھر(شوہر سے مکمل پردے کے اہتمام کے ساتھ ) گزارنا لازم ہے،عدتِ طلاق گزارنے کے بعد سائلہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

نیز:بیٹے کی  عمر سات سال ہونے  تک وہ سائلہ کی   پرورش میں رہے گا، بشرطیکہ سائلہ  دوسری جگہ شادی بیٹے کے خاندان سے باہر نہ کرے،  اگر سائلہ  نے بیٹے کے خاندان سے باہر شادی کی تو ایسی صورت میں سائلہ کا حقِ پرورش  ساقط ہوجائے گا ،اور بچے کی نانی کو مقررہ عمر تک پرورش کا حق ہوگا، اور اگر نانی نہ  ہو تو پھر  بچہ اپنی  دادی کی پرورش میں رہے گا ، بہر صورت بچے کے نفقہ و دیگر اخراجات کی ذمہ داری بچے کے والد پر ہوگی اور حسبِ استطاعت خرچہ کرنابچے کے والد  پر لازم ہوگا،اور   بیٹے کی عمر   سات سال  ہونےکے بعد والدکےلئے اپنی تربیت میں رکھنے کا حق ہو گا۔

قال اللّٰه سبحانه وتعالیٰ :

﴿ وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴾

[ الطلاق ، جزء آیت :۴  ]

وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل."

 (رد المحتار، کتاب الطلاق، 3/ 232ط: سعید )

وفی الفتاوی الھندیہ:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به،  ج:1، ص: 473، ط: مكتبه رشيديه)

وفیہ ایضا:

"وعدة الحامل أن تضع حملها، كذا في الكافي. سواء كانت حاملًا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق، ج:1، ص: 528، ط: مكتبه رشيديه)

و فی الفتاوی  الشامیہ:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب."

(3/566، باب الحضانۃ، ط:سعید)

و فی الفتاوی الہندیہ:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد،١/ ٥٦١)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں