بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حج تمتع کی نیت کرنے والا حج قران کرسکتا ہے؟


سوال

حج تمتع کرنے والا اگر حج قران کرنا چاہے ، چاہے عمرہ مکمل کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں، تو کیا اس کی کوئی صورت ممکن ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حج تمتع کی نیت سے احرام باندھنے کے بعد چاہے عمرہ مکمل کیا ہویا نہ کیا ہو،اس کے لیے حجِ قِران کا احرام باندھنا جائز نہیں، اگر تمتع کا احرام باندھنے والا عمرے سے فارغ ہوکر مکہ مکرمہ سے نکل کے مدینہ منورہ بھی چلا جائے،  تب بھی اس کے لیے یہی حکم ہے؛ اس لیے کہ یہ  شخص حکماً مکہ مکرمہ میں رہنے والا شمار ہوگا،   اگر مکہ  مکرمہ سے نکل کے مدینہ منورہ سے حج قِران کا احرام باندھ کر آئے گا تو دم دینا لازم ہوگا،    البتہ اگر وہ  حج تمتع کے عمرے سے فارغ ہوکر اپنے گھر لوٹ جائے،  تو اس کا تمتع باطل ہوجائے گا اب اگر دوبارہ حج قِران کا احرام باندھ کر چلا جائے توایسی صورت میں حج قِران کرنا جائز ہے۔

غنیۃ الناسک میں ہے:

"وأقام بمكة حلالا يطوف بالبيت ما بداله، ويعتنى بسائر ما سبق له في فصل ما ينبغي الاعتناء به بعد السعى، ويعتمر قبل الحج ماشاء. وما في اللباب: ولا يعتمر قبل الحج فغير صحيح؛ لأنه بناء على أن المكي ممنوع من العمرة المفردة، وهو خلاف مذهب أصحابنا جميعا؛ لأن العمرة جائزة فـي جـمـيـع السنة بلاكراهة إلا في خمسة أيام، لا فرق في ذلك بين المكي والآفاقی، صرح به في النهاية والمبسوط والبحر، وأخى زاده والعلامة قاسم وغيرهم رحمهم الله تعالى، كذا في المنحة، بـل الـمـكـى ممنوع من التمتع والقرآن، وهذه عمرة مفردة لا أثر لها في تكرر تمتعه، ولا يعتمر مع الـحـج؛ لأنه في حكم المكي، ولو فعل لا يكون قارئًا باتفاقهم، وعليه رفض العمرة، أو الحج، كما سيـأتـي فـي الـجمع المكروه، وهو متمتع إن حج من عامه، وكذا لو خرج إلى الآفاق لحاجة، فقرن لايـكـون قـارنا عند أبي حنيفة، وعليه رفض أحدهما، ولا يبطل تمتعه؛ لأن الأصل عنده أن الخروج في أشـهـر الـحـج إلى غير أهله كالإقامة بمكة، فكأنه لم يخرج......".

(باب التمتع، فصل في كيفية أداء التمتع المسنون، ص:215، ط:إدارة القرآن)

وفیہ ایضاً:

" فإن أحـرم الـمكى بهما معا ، أو أدخل إحرام الحج على العمرة قبل طوافها ، فلابد من رفض أحـدهـمـا ، فـرفـض الـعـمـرة أولى بالاتفاق ...... وعليه عمرة ودم الرفض ، وإن مضى فيهما جاز وأسـاء وعـلـيـه دم الـجـمـع . "

(باب الجمع بين النسكين أو أكثر، فصل في الجمع المكروه بين عمرة و حجة، ص:230، ط: إدارة القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144312100326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں