بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حافظ بہشت کے درجات پر چڑھتے ہوئے غلطی اور اٹکن کرے گا؟


سوال

جب حافظ  سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتے جا اور بہشت کے درجوں پر چڑھتے جا، تیرا مقام وہاں ہے جہاں تو آخری آیت کو پہنچے۔

دنیا میں حافظ جب غلطی کرتا تھا تو استادِ محترم واپس کر دیتے تھے، تو وہاں پر غلطی اور اٹکن کی صورت میں کیا ہو گا؟

جواب

احادیث کے مضامین سے یہ امر مستفاد ہے کہ اہلِ جنت ہر عیب دار چیز سے پاکیزہ ہوں گے، پیشاب اور پائخانہ نہ آتا ہو گا، دلوں کے کینے اور حسد وغیرہ سے محفوظ ہوں گے، غرض کہ ہر وہ چیز جو انسان کو عیب دار بناتی ہے اس سے پاک کر دیا جائے گا اور نسیان، بھول اور غلطی بھی انسان کو معیوب بناتی ہے؛ لہٰذا جس حافظِ قرآن کے بارے میں دخولِ جنت کا فیصلہ ہوجائے گا اور اسے جنت کی بشارت سنانے کے ساتھ قرآنِ مجید پڑھتے ہوئے جنت میں داخل ہونے کا کہا جائے گا تو  اسے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے نسیان کے عارضے سے پاک کردیں گے، وہ قرآنِ مجید کو ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھتا ہوا جنت میں داخل ہوگا، اس دوران غلطی اور اٹکن کی نوبت ہی نہ آئے گی۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 591):
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أول زمرة تدخل الجنة على صورة القمر ليلة البدر، ثم الذين يلونهم على ضوء أشد كوكب دري في السماء إضاءة، لايبولون، ولايتغوطون، ولايمتخطون، ولايتفلون، أمشاطهم الذهب، ورشحهم المسك، ومجامرهم الألوة، أزواجهم الحور العين، أخلاقهم على خلق رجل واحد، على صورة أبيهم آدم، ستون ذراعًا»".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (16/ 230):
"وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: "إن أهل الجنة يأكلون فيها ويشربون أي فيها ولايتفلون أي لايبصقون ولايبولون ولايتغوطون ولايمتخطون" من باب الافتعال وفيما سبق من باب التفعل قالوا: أي بعض الصحابة فما بال الطعام أي ما شأن فضلته؟ قال: جشاء بضم الجيم وهو تنفس المعدة من الامتلاء، وقال شارح: أي صوت مع ريح يخرج من الفم عند الشبع، أقول: التقدير هو جشاء ورشح أي عرق كرشح المسك أي يصير فضل الطعام جشاء أي نظيره وإلا فجشاء الجنة لايكون مكروهًا بخلاف جشاء الدنيا، ولهذا قال: أقصر عنا جشاءك، ويصير رشحًا وهو إما باعتبار اختلاف الأشخاص أو الأوقات أو بعض الطعام يكون جشاء وبعضه يكون رشحًا، والأظهر أن الأكل ينقلب جشاء والشرب يعود رشحًا، والطعام قد يطلق عليهما نظرًا إلى معنى الطعم، ففي القاموس طعم الشيء حلاوته ومرارته وما بينهما يكون في الطعام والشراب، أقول: وبه يتم التنزيه في قوله: {وهو يطعم ولايطعم} الأنعام، هذا وفي رواية الجامع: ولكن طعامهم ذلك جشاء ورشح كرشح المسك". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں