بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا گود لی بچی یا بچہ کی ولدیت تبدیل کرنے پر جنت حرام ہو جاتی ہے ؟


سوال

کیا گود لی بچی یا بچہ کی ولدیت تبدیل کرنے پر جنت حرام ہو جاتی ہے ؟

جواب

قران مجید میں اللہ تعالی نے منہ بولے بیٹوں کے متعلق  صریح حکم  دیا ہے کہ ان کو ان کے والد کی طرف منسوب کر کے بلایا جائے لہذا اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو گناہ کا مرتکب ہوگا،چنانچہ  مسئلہ کے علم  ہوجانے کے بعد اس  عمل سے توبہ کی جائے اور آئندہ گریز کیا جائے کیوں کہ  گناہ پر اصرار اس کو گناہ کبیرہ بنا دیتا ہے ،البتہ یہ بات کہ گود لی بچی/بچے کی ولدیت تبدیل کرنے سے جنت حرام ہو جاتی ہے ، بعینہ اسی مضمون کے اتھ کوئی روایت کتب احادیث نہیں ملتی، البتہ صحیح بخاری اور دیگر احادیث کی کتاب میں  یوں مروی ہے کہ :

عن سعد رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (‌من ‌ادعى ‌إلى ‌غير ‌أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام)

ترجمہ : حضرت سعد  رضي الله عنہ  سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف جان بوجھ کر  نسب کا دعوی کیا اس پر جنت حرام ہے ."

اس حدیث کی شرح میں محدثین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد  وہ شخص ہے جو نسب تبدیل کرنے کی حرمت کا ہی منکر ہو اور اسے حلال سمجھتا ہو  ،جس کی وجہ سے  وہ مسلمان شمار نہیں ہوگا اور جنت میں نہیں جائے گا۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ [الأحزاب: 5]          

شرح قسطلانی میں ہے:

"(من ادعى إلى غير أبيه وهو) أي والحال أنه (يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام) إن استحل ذلك أو هو محمول على الزجر والتغليظ للتنفير عنه."

(كتاب الفرائض، باب من ادعى إلى غير أبيه، ج9، ص445، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله) أي أعدل. فرفع الله حكم التبني ومنع من إطلاق لفظه وأرشد بقوله إلى أن الأولى والأعدل أن ينسب الرجل إلى أبيه نسبا."

(سورة الأحزاب ، آية 5،ج14،ص118،ط:دار الكتب المصرية)

الفقہ الاکبر میں ہے :

"ولا نكفر مسلما بذنب من الذنوب وإن كانت ‌كبيرة إذا لم يستحلها ولا نزيل عنه اسم الإيمان ونسميه مؤمنا حقيقة ويجوز ان يكون مؤمنا فاسقا غير كافر."

(‌‌لا يكفر مسلم بذنب ما لم يستحله،ص43،مكتبة الفرقان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں