بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا گاؤں میں نمازجمعہ پڑھنا جائزہے؟


سوال

 ایک گاؤں میں نماز جمعہ ادا ہوتی تھی، جب کہ وہاں کسی مجبوری کی وجہ سے جمعہ پڑھانا چھوڑ دیا گیا تھا، اب وہ لوگ دوبارہ وہاں نمازِ جمعہ شروع کرنا چاہتے ہیں،  جب کہ گاؤں کی آبادی ایک ہزار سے بھی کم ہے، ضروریاتِ   زندگی بھی میسر نہیں ہیں،اس  گاؤں کے ارد گرد  اور گاؤں ہیں ان میں نماز جمعہ ادا ہوتی ہے،کیا اس طرح کی مسجد میں دوبارہ نمازِ جمعہ شروع ہو سکتی ہے؟ اور اگر کسی نے نماز جمعہ پڑھ لی تو کیا اس کا فرض ادا ہو جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ احناف کے نزدیک نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے (مصر)شہریا فناء شہر  یا(قریہ کبیرہ)بڑی بستی کاہوناشرط  ہے،چھوٹا گاؤں ،چھوٹی بستی میں نماز جمعہ  درست نہیں ہوگی ،اور  قریہ کبیرہ سے مرادیہ ہے کہ وہ گاؤں اتنابڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی ،تین ہزارلوگوں پر مشتمل ہواوروہاں   تمام ضروریات زندگی با   آسانی مل سکتی ہو ں مثلا  خورد ونوش کا ساماں اور کپڑا وغیرہ بکتا ہو  ۔

درج بالاتفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  دیہات    قریہ کبیرہ کے حکم میں نہیں  آتاہے  ؛لہذاوہاں نمازجمعہ پڑھنا جائز نہیں ،مذکورہ گاؤں والوں پر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز اداکرنا لازم ہے ،اوراگر کوئی وہاں   نمازجمعہ پڑھ لے تو اس سے فرض ادا نہیں ہوگا بلکہ دوبارہ نمازِ ظہر  پڑھناضروری ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

'' أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام ، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة ، وفي رواية قال : إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة ، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها ، وقال بعض أصحابنا : المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى ، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال : أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة ، وقال سفيان الثوري : المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة ، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال : أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام ، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما .

وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح."

(بدائع الصنائع،فصل في  بیان شرائط الجمعۃ، ج: 1،ص: 260،ط:دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(وهو) أي المصر (‌كل ‌موضع ‌له ‌أمير ‌وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود)، وهذا رواية عن أبي يوسف، وهو اختيار الكرخي وعنه أنهم لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لا يسعهم، وهو اختيار البلخي وعنه هو كل موضع يكون فيه كل محترف ويوجد فيه جميع ما يحتاج الناس إليه في معايشهم وفيه فقيه مفت وقاض يقيم الحدود."

(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق،باب صلاة الجمعه،ج :1، ص217،المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

"ومن لاتجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلواالظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة ."

( كتاب الصلوة ،الباب السادس عشر في صلاة الجمعة ،ج:1،ص: 145،ط: دار الفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے: 

"قریہ صغیرہ میں جمعہ جائز نہیں ،قریہ کبیرہ میں جائز ہے ،قریہ اور شہر کی تعریف میں عرف کے اعتبار سے تغیر ہوتا رہتا ہے اس لئے کہ ماہیت کی تعریف تو مقصود نہیں ہے ،آثار وعلامات کے اعتبار سے تعریف کی جاتی ہے جس سےدونوں میں فی الجملہ امتیاز قائم ہوجائے آثار وعلامات کاتغیر یہی ہے مثلا ًجس جگہ جمعہ کی اجازت ہو اس کے متعلق اس طرح علامات بتائی جائیں کہ وہاں گلی کوچےہوں ،محلے ہوں ضروری پیشہ ور رہتے ہوں ،ڈکخانہ ہو،شفاخانہ ہو.....كم وبیش ڈھائی ہزار کی آبادی ہو" ۔

(کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجمعة،فصل في اشتراط المصر للجمعة ،ج:8،ص:66،65،ط:ادارۃ الفاروق کراچي)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"آپ کی بستی شہر یا قصبہ ہو یاقصبہ نمابڑا گاؤں ہو اور اہل حرفہ  (جن کی اگثر وبیشتر ضرورت ہوتی ہو ) موجود ہوں اور لوگوں کے حوائج ضرور یہ پورے ہوتے ہوں اور خود ونوش کا ساماں اور کپڑا وغیرہ بکتا ہو تو جمعہ صحیح ہوگا ورنہ نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی "۔

(کتاب الصلاہ،ج:6،ص:90،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402100242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں