بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا آج کے دور میں فجر اور عشاء کی نماز چھوڑنے والا منافق شمار ہو گا؟


سوال

آج کے دور میں فجر اور عشاء کی نماز نہ پڑھنے والا منافقین میں شمار ہو گا؟

 

 

جواب

واضح رہے کہ نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا  مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو  متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں، نيز حضرت  ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے جوحدیث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ :

" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى لے كر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

يہ حديث شريف رسول الله صلی الله عليہ  وسلم كے زمانے كے منافقين كے بارے میں ہے،  جس میں منافقین کی ایک علامت بتائی گئی ہے ،کہ ویسے تو منافقین پر سب نمازیں بھاری ہیں،البتہ  فجر اور عشاء کی نمازیں کیوں کہ آرام اور نیند کے وقت میں ہیں اس لیے یہ منافقین پر زیادہ بھاری ہیں،اور  ان دو وقتوں میں  نماز میں حاضر ہونا ان کو  طبیعت پر نہایت گراں  گزرتا ہے، جب کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مسلمانوں کے  لیے یہ بات بہت بعید تھی کہ کوئی بلاعذر مسجد کی جماعت چھوڑ دے ،چہ جائے کہ نماز چھوڑے، نیز نماز کے بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دلی طور پر اسے ناپسند سمجھے اور اگر پڑھے بھی تو اسے بوجھ سمجھ کر محض دکھاوے کے لیے پڑھے، لہذا آج کے دور میں اگر کوئی مسلمان فجر اور عشاء کی نماز میں سستی کرتا ہے تو اسے منافق نہیں شمار کیا جائے گا، کیوں یہ اس کی عملی سستی ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا، لیکن وہ دل سے نماز کو برا یا طبیعت پر بوجھ نہیں سمجھتا اس لیے اسے منافق کہنا درست نہیں،البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے منافقوں والا عمل کیا ہے۔

تفسير النسفی میں ہے  :

"وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصلاة قَامُواْ كسالى} متثاقلين كراهة أما الغفلة فقد يبتلى بها المؤمن وهو جمع كسلان كسكارى في سكران {يراؤون الناس} حال أي يقصدون بصلاتهم الرياء والسمعة والمارءاة مفاعلة من الرؤية لأن المرائى يريهعم عمله وهم يرونه استحساناً {وَلَا يَذْكُرُونَ الله إِلَاّ قَلِيلاً} ولا يصلون إلا قليلاً لأنهم لا يصلون قط غائبين."

(سورة النساء ،آية :142 ج:1 ،ص: 407 ،ط:دار الكلم الطيب)

صحيح بخاري  میں ہے:

"حدثنا خلاد: حدثنا مسعر، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الشعثاء، عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إن أثقل صلاة على المنافقين صلاة العشاء وصلاة الفجر، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا. ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام، ثم آمر رجلا فيصلي بالناس. ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار ."

(کتاب الصلوة ،باب فضل الجماعة ، ج:2 ص:123 ط:دار الطباعة العامرة ) 

شرح النووی علی مسلم میں ہے :

"وقال الجمهور ليست فرض عين واختلفوا هل هي سنة أم فرض كفاية كما قدمناه وأجابوا عن هذا الحديث بأن هؤلاء المتخلفين كانوا منافقين وسياق الحديث يقتضيه فإنه لا يظن بالمؤمنين من الصحابة أنهم يؤثرون العظم السمين على حضور الجماعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي مسجده".

(کتاب الصلوة، باب فضل الجماعة،ج:5 ،ص:153،ط:دار الاحياء)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:222،ط:دار إحياءالتراث العربي)

 وفيہ أيضا:

"إن هذہ الخصال قد توجد في المسلم المصدق بقلبه ولسانه مع أن الإجماع حاصل علی أنه لا یحکم بکفرہ وبنفاق یجعله في الدرک الأسفل من النار".

( باب علامة المنافق ،ج:1،ص:221،ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں