بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا فرض شروع ہونے کے بعد فجر کی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں؟


سوال

اگر فجر کی نماز کھڑی ہو تو کیا سنت پڑھ سکتے ہیں؟؟؟اگر کوئی بندہ رکعت چھوٹنے کی وجہ سے نماز میں شریک ہوجائے تو پھر سنت نماز کے بعد پڑھیں گے یا اشراق کے بعد؟

جواب

اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت کھڑی ہو گئی ہو تو اگر اسے امید ہوکہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو اسے چاہیے کہ (برآمدے یا صحن يا کسی ستون کے پیچھے ، یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر)  فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے۔ اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے۔

اور سنت رہ جانے کی صورت میں سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ سورج طلوع ہوجانے کے بعد اشراق کے وقت  سے زوال تک قضا کی نیت سے سنت پڑھ سکتے ہیں۔ 

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي: إقامة إمام مذهبه لحديث «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة»، (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلا".

(وفي رد المحتار:) "(قوله: إلا سنة فجر) ؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية.

(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعا للبحر، لكن ضعّفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لا يصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعة، وسيأتي في باب إدراك الفريضة ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره".

(الدر المختار  مع رد المحتار: كتاب الصلاة (1/ 378)، ط. سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علي مراقی الفلاح میں ہے:

"قوله: (إلا سنة الفجر إذا أمن فوت الجماعة)، إنما خصت سنة الفجر؛ لأن لها فضيلة عظيمة قال صلى الله عليه وسلم: (ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها)، وروي: "صلوهما وإن طردتكم الخيل" أو أن فيهما الرغائب ولكن لما كانت للجماعة فضيلة أيضا يعمل بها بقدر الإمكان عند التعارض، فإن خشي فوت الجماعة دخل مع الإمام، لأنه لما تعذر إحرازهما يحرز أفضلهما وهو الجماعة".

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: كتاب الصلاة، فصل في الأوقات المكروهة (ص:190)، ط. دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة:  الطبعة الأولى: 1418هـ =1997م)

مجمع الانہر میں ہے:

"(ولا تقضى) سنة الفجر عند الشيخين (إلا) حال كونه (تبعا للفرض) بعد الطلوع قبل الزوال، وفيما بعد الزوال اختلاف مشايخ ما وراء النهر قال بعضهم: يقضيها تبعا ولا يقضيها مقصودة وقال بعضهم: لا يقضيها لا تبعا ولا مقصودة قيل: وهو الصحيح.(وعند محمد تقضى) إذا فاتت بلا فرض (بعد الطلوع) إلى الزوال استحسانا".

(مجمع الأنهر: كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة (1/ 142)، ط. دار إحياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں