کیاایک شریک اپنےدوسرے شریک سے نفع کے ساتھ کچھ مال خرید سکتاہے؟ زید نے عمرسے کہا کہ تمہارا فلاں پلاٹ ایک لاکھ روپے میں فروخت کروادوں؟ عمر نے کہا بہتر ،زید نے کہا کہ اگر زائد کا فروخت ہو گا ،تو وہ رقم میں رکھوں گا ،عمرنے کہا ٹھیک ہے، تو کیا یہ طریقہ درست ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں زید کا عمرکےساتھ مذکورہ معاملہ(یعنی زیدکاعمرسےیہ کہناکہ تمہارافلان پلاٹ اگرایک لاکھ سےزائد کافروخت کردیاتوایک لاکھ آپ کاہوگااور ایک لاکھ سےزائدرقم میں رکھوں گا)کرناشرعاً درست نہیں ہے۔ زیداگرمذکورہ پلاٹ فروخت کرےگاتواس پلاٹ کی کل قیمت عمرکی ہوگی اورزید کوصرف اجرت مثل ملےگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"دفع ثوبا إليه وقال بعه بعشرة فما زاد فهو بيني وبينك قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إن باعه بعشرة أو لم يبعه فلا أجر له وإن تعب له في ذلك، ولو باعه باثني عشر أو أكثر فله أجر مثل عمله وعليه الفتوى."
(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر، ج:4، ص:451، ط: دار الفكر بيروت)
وفي فتح الباري لابن حجر:
"وقال بن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك وصله بن أبي شيبة من طريق عطاء نحوه وهذه أجر سمسرة أيضا لكنها مجهولة ولذلك لم يجزها الجمهور وقالوا إن باع له على ذلك فله أجر مثله وحمل بعضهم إجازة بن عباس على أنه أجراه مجرى المقارض."
(كتاب الإجارة ،(قوله باب أجر السمسرة)،ج:،4،ص:451،ط: دار المعرفة،يروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144402100529
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن