بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا دکان میں کام کرنے سے حصہ داری بن جاتی ہے؟


سوال

ایک شخص کی ایک منہ بولی بہن تھیں، جو لندن میں رہتی تھیں، اور حیات ہیں، انہوں نے بیس سال قبل لندن سے بیس لاکھ روپے بھیجے کہ میرے لیے دکان خرید لو تو  اس شخص نے اُن ہی کے لیے ایک دکان خرید لی، بہن چوں کہ لندن میں تھی تو انہوں نے کہا کہ دکان میری ہے، میرے نام کرا دو، البتہ تم اس کو استعمال کرتے رہو، دس سال تک مذکورہ دکان میں  اس شخص نے کام کیا، ان کے انتقال کے بعد وہ دکان کرائے پر دے دی گئی اور منہ بولی بہن نے کہا کہ آپ کرایہ استعمال کرتے رہیں اور اس  سال کرایہ لیتے رہیں، یہ مدد کے طور پر کہا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ دکان بک رہی ہے، اس میں کیا  مذکورہ شخص کی بیوہ اور بچوں کا کوئی حق بنتا ہے یا نہیں؟جب کہ دکان کی ملکیت منہ بولی بہن کی ہے، بچے کہہ رہے ہیں کہ دکان میں ہمارے باپ کی محنت کا بھی حصہ بنتا ہے،  کیا ان کی یہ بات درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  واقعتًا مذکورہ دکان کی رقم لندن  میں رہائش پذیر ، مذکورہ شخص کی منہ بولی بہن نے دی اور  ان صاحب نے اُن ہی کے لیے دُکان خریدی تو یہ دکان مذکورہ خاتون ہی کی ملکیت شمار ہو گی،  اگر  مرحوم اِس دکان میں دس سال تک کام کرتے رہے تو اس بنا  پر وہ اس دکان  میں حصہ دار نہیں ہوں گے، لہذا اُن کے انتقال کے بعد اُن کی اولاد کا اِس دکان میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، نیز  مالکہ کی اجازت و خواہش کے بعد اس دکان کے  فروخت ہونے کی صورت میں بھی اِس کی پوری رقم مذکورہ خاتون ہی کی ملک ہو گی، مرحوم کی بیوہ اور اولاد کا اس میں کوئی حق و حصہ نہ ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكمًا بالتهيئة كنصب الصيد."

و في الرد :

"(قوله: ناقل) أي من مالك إلى مالك، وقوله وخلافة: أي ذو خلافة، وكذا يقال فيما بعده ط."

(كتاب الصيد 6/ 463 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304101007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں