کیا موت کا وقت مقرر ہے اور دعا سے موت کا وقت بدل سکتا ہے؟
آدمی کی موت کا وقت اس کی تقدیر سے متعلق ہے اور تقدیر کی درج ذیل دو قسمیں ہیں :
پہلی قسم "تقدیر مبرم" ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔
دوسری قسم "قضائے معلق" کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :
{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ} [الرعد : 13، 39]
ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ" ، یعنی: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:"أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283) یعنی ’’میں اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘، بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله".
اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :
«لايرد القضاء إلا الدعاء، و لايزيد في العمر إلا البر».
(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)
ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘
اس حدیث کی تشریح میں شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں وہ عمر مراد ہے جس کا تعلق تقدیرِ معلق سے ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔
دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)
خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی عمر کی جو حتمی مدت اللہ تعالیٰ کے علم میں باعتبار تقدیر مبرم کے ہے، اس میں تو کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوسکتی ہے ، البتہ روح قبض کرنے والے فرشتہ کی بنسبت عمر میں تبدیلی ہوسکتی ہے، یعنی مثلًا ملک الموت کو حکم دیا گیا ہو کہ فلاں شخص کی روح چالیس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، لیکن پھر اس کی کسی نیکی کی وجہ سے ملک الموت کو حکم ہوجائے کہ اس کی روح چالیس نہیں، بلکہ پچاس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، تو گویا ملک الموت کو حکم دینے کے اعتبار سے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوگیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں لوح محفوظ میں اس کی عمر ابتداءً ہی پچاس سال لکھی ہوئی تھی، کیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کی عمر اللہ کے ازلی علم میں چالیس لکھی ہو اور پھر وہ چالیس سال سے پہلے یا بعد میں مرے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح(4/ 1528):
"و عن سلمان الفارسي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "« لايرد القضاء إلا الدعاء، و لايزيد في العمر إلا البر» (رواه الترمذي).
(وعن سلمان الفارسي): بكسر الراء وتسكن (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "« لايرد القضاء إلا الدعاء»" : القضاء: هو الأمر المقدر، وتأويل الحديث أنه أراد بالقضاء ما يخافه العبد من نزول المكروه به ويتوقاه، فإذا وفق للدعاء دفعه الله عنه، فتسميته قضاء مجاز على حسب ما يعتقده المتوقي عنه، يوضحه قوله صلى الله عليه وسلم في الرقي: هو من قدر الله، وقد أمر بالتداوي والدعاء مع أن المقدور كائن لخفائه على الناس وجودا وعدما، ولما بلغ عمر الشام وقيل له: إن بها طاعونا رجع، فقال أبو عبيدة أتفر من القضاء يا أمير المؤمنين! فقال: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قضاء الله إلى قضاء الله، أو أراد برد القضاء إن كان المراد حقيقته تهوينه وتيسير الأمر، حتى كأنه لم ينزل. يؤيده قوله في الحديث الآتي: «الدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل» ، وقيل: الدعاء كالترس، والبلاء كالسهم، والقضاء أمر مبهم مقدر في الأزل " ولا يزيد في العمر ": بضم الميم وتسكن " إلا البر ": بكسر الباء وهو الإحسان والطاعة. قيل: يزاد حقيقة. قال تعالى: {وما يعمر من معمر ولاينقص من عمره إلا في كتاب} [فاطر: 11] وقال: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] . وذكر في الكشاف أنه لا يطول عمر إنسان ولا يقصر إلا في كتاب. وصورته: أن يكتب في اللوح إن لم يحج فلان أو يغز فعمره أربعون سنة، وإن حج وغزا فعمره ستون سنة، فإذا جمع بينهما فبلغ الستين فقد عمر، وإذا أفرد أحدهما فلم يتجاوز به الأربعين فقد نقص من عمره الذي هو الغاية وهو الستون، وذكر نحوه في معالم التنزيل، وقيل: معناه أنه إذا بر لا يضيع عمره فكأنه زاد، وقيل: قدر أعمال البر سببا لطول العمر، كما قدر الدعاء سببا لرد البلاء، فالدعاء للوالدين وبقية الأرحام يزيد في العمر، إما بمعنى أنه يبارك له في عمره فييسر له في الزمن القليل من الأعمال الصالحة ما لا يتيسر لغيره من العمل الكثير، فالزيادة مجازية؛ لأنه يستحيل في الآجال الزيادة الحقيقية.
قال الطيبي: اعلم أن الله تعالى إذا علم أن زيدا يموت سنة خمسمائة استحال أن يموت قبلها أو بعدها، فاستحال أن تكون الآجال التي عليها علم الله تزيد أو تنقص، فتعين تأويل الزيادة أنها بالنسبة إلى ملك الموت أو غيره ممن وكل بقبض الأرواح، وأمره بالقبض بعد آجال محدودة، فإنه تعالى بعد أن يأمره بذلك أو يثبت في اللوح المحفوظ ينقص منه أو يزيد على ما سبق علمه في كل شيء وهو بمعنى قوله تعالى: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وعلى ما ذكر يحمل قوله - عز وجل -: {ثم قضى أجلا وأجل مسمى عنده} [الأنعام: 2] فالإشارة بالأجل الأول إلى ما في اللوح المحفوظ، وما عند ملك الموت وأعوانه، وبالأجل الثاني إلى ما في قوله تعالى: {وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وقوله تعالى: {إذا جاء أجلهم فلا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون} [يونس: 49] والحاصل أن القضاء المعلق يتغير، وأما القضاء المبرم فلا يبدل ولا يغير. (رواه الترمذي) : وكذا ابن ماجه عن سلمان، وابن حبان، والحاكم وقال: صحيح الإسناد عن ثوبان، وفي روايتيهما: «لايرد القدر إلا الدعاء، ولايزيد في العمر إلا البر، وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يذنبه»."
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 3088):
"والمراد بزيادة العمر البركة فيه، ففي شرح السنة ذكر أبو حاتم السجستاني في معنى الحديث أن دوام المرء على الدعاء يطيب له ورود القضاء، فكأنما رده والبر يطيب له عيشه، فكأنما زيد في عمره، والذنب يكدر عليه صفاء رزقه إذا فكر في عاقبة أمره فكأنما حرمه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201279
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن